مشرقی ایشیائی سمٹ(آسیان) کا پینتسواں پروگرام تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں منعقد ہوا۔ اس سمٹ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کی نمائندگی کی۔
اس موقع پر مختلف ممالک کے رہنماوں نے اس خطے کی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی معاملات میں ترقی سے متعلق امکانات پر گفتگو کی۔
خیال رہے کہ ایشیائی پیسیفک علاقے کا یہ سب سے بڑا اسٹیج ہوتا ہے، جہاں گذشتہ روز آسیان ممالک کے 10 ارکان انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، برونائی، ویت نام، لاوس، میانمار اور کمبوڈیا کے علاوہ بھارت، جاپان، چین، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سربراہان کی موجودگی اس سمٹ کے لیے انتہائی اہم تھا۔
مشرقی ایشیائی سمٹ پروگرام میں عموما آسیان ممالک کے علاوہ دیگر 8 ممالک بھی شریک ہوتے ہیں، اس میں امریکہ روس اور چین بھی شامل ہیں۔
آسیان کیا ہے؟
جنوب ایشیائی ممالک کی اتحادی تنظیم 'ایسوسیشن آف ساوتھ ایسٹ ایشین نیشنز' کو (آسیان) کہا جاتا ہے۔ آسیان کا قیام 8 اگست سنہ 1967 میں انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور اور تھائی لینڈ نے مل کر کیا تھا۔
آسیان کے قیام کا مقصد ویت نام سے آگے اشتراکیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے متحد ہونا تھا۔ اس کے علاوہ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں رکن ممالک کو ترقی دینا اور خطے میں امن کو قائم کرنا تھا۔
آسیان کے سیکریٹری جنرل کا انتخاب 5 برسوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا صدر مقام انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ہے۔ اس میں شامل سبھی 10 ممالک کی زبانیں سرکاری زبان کے طور پر درج ہیں۔آسیان کے موجودہ سیکریٹری جنرل برونائی کے لم جوک ہوئی ہیں۔
بینکاک میں ہونے والے اس سمٹ میں تین اہم امور یعنی اقتصادی معاملات کے علاوہ کورین پیننسولا میں امن بحالی اور جنوبی چین کے سمندری علاقے میں تناو کی کیفیت کو کس طرح کم کیا جائے۔ ان سبھی امور سے متعلق گفتگو کی گئی۔
اس پروگرام میں ہند پیسفک خطے میں حفاظتی اقدامات کے کیا طور طریقے ہوں گے اس سے متعلق بھی گفتگو کی گئی۔
آر سی ای پی کیا ہے؟
در اصل آر سی ای پی یعنی 'ریجنل کمپریہنسیو اکنامک پارٹنرشپ' آسیان کے علاوہ 6 دیگر ممالک آسٹریلیا، چین، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ، جاپان اور بھارت پر مشتمل ایک اتحاد ہے، جسے سنہ 2012 میں بنایا گیا تھا۔
آسیان کے علاوہ ان چھ ممالک کے درمیان ایف ٹی اے 'فری ٹریڈ ایگریمنٹ' یعنی ایک فری ٹریڈ کا معاہدہ ہے، جس کے تحت ان ممالک میں یورپی اتحاد کی طرح آزادانہ تجارت کے معاملات ہوتے ہیں۔
اس سمٹ کے آر سی ای پی کی میٹنگ میں اس بات کی کوشش تھی کہ سبھی رکن ممالک شفاف اور غیر جانبدارانہ طریقے سے کس طرح باہمی تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں اس سلسلے میں بات کی جائے، تاہم چین کی مداخلت کے بعد بھارت کی میٹنگ سے کنارہ کشی، اس میٹنگ کے لیے کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں کہا جا سکتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے مطابق کچھ ایسے اہم موضوعات ہیں، جن پر تبالہ خیال کیا گیا ہے۔ غیر جانب دارانہ اور شفاف تجارت کا ماحول تیار کرنے کی سمت میں بھی بات چیت کی گئی، تاہم گذشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آر سی ای پی میں شامل ہونے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ اس معاہدے میں بھارت کے نکات کو قبول نہیں کیا گیا ہے، اسی لیے بھارت آر سی ای پی میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔
کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آر سی ای پی میں بھارت کی شراکت کے بغیر دیگر 15 ممالک فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو جاری رکھیں گے، تاہم آسیان کا یہ سمٹ بھارت کی شراکت کے بغیر حتی الامکان کامیاب نہیں کہا جا سکتا ہے۔