ETV Bharat / international

یروشلم میں رہنے والے فلسطینی مسلمان یہودیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

author img

By

Published : Jul 9, 2020, 9:00 PM IST

اسرائیلی رہنما دنیا بھر میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یروشلم بقائے باہمی کا ایک نمونہ ہے، جہاں یہودی اکثریت میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

sdf
sdf

اگر اسرائیل مقبوضہ ویسٹ بینک کے کچھ حصوں کو ضم کرتا ہے تو مستقبل میں ویسٹ بینک کے سماجی اور معاشرتی نتائج کیسے ہوں گے، اس سے متعلق کچھ بھی کہنا مشکل ہے، لیکن تقریبا 70 برس قبل مشرقی یروشلم کے ضم کے بعد یروشلم میں رہنے والے مسلم باشندوں کی باتیں یقینا تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ویڈیو

یروشلم کے نزدیکی علاقے سلوان میں رہنے والے ایک فلسطینی مسلمان جواد صیام نے بتایا کہ 'ایک فلسطینی کے طور پر اسرائیلی عدالتوں میں جانا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہاں یکطرفہ نظام ہے۔ خواہ عدالت ہو یا جج یا پھر حکومت، سب ایک جیسے ہیں۔ اور سیٹلمنٹ ایسوسی ایشن بالخصوص ایلعاد بہت زیادہ حاوی ہے۔ ایلعاد کے مطابق یہ یہودیوں کا شہر ہے، جس کا مطلب یہاں رہنے والے ہم فلسطینی لوگ مجرم ہیں'۔

خیال رہے کہ اسرائیلی رہنما دنیا بھر میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یروشلم بقائے باہمی کا ایک نمونہ ہے، جہاں یہودی اکثریت میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جواد صیام کا مزید کہنا ہے کہ 'دنیا سمجھتی ہے کہ یہاں کی زندگی بہت شاندار ہے، کیوں کہ فلسطینی اور اسرائیلی ایک ساتھ رہتے ہیں، لیکن یہاں ایک ساتھ رہنے والے عام اسرائیلی کے علاوہ ایسے آباد کاروں کے بارے میں بات کرتے ہیں گے، جن کا ماننا ہے کہ یہاں یہودیوں کی اکثریت ہونی چاہیے۔ یہ آبادکار آپ کا پڑوسی نہیں بلکہ ایک کے بعد ایک گھر بسانا چاہتا ہے'۔

یہاں رہنے والے بیشتر فلسطینی مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ ہے، تو کچھ لوگوں کو ان کے گھر سے جبرا بے دخل کیے جانے کا بھی خوف ہے، کیوں کہ انسانی حقوق کی کچھ جماعتوں کا ماننا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں اسرائیلی حکام نے یروشلم کے حساس علاقوں میں مکانات پر قبضہ کر لیا اور قانون کا غلط استعمال کر کے فلسطینی باشندوں کو بے دخل کرنے کے ساتھ ہی آباد کاروں کو یہاں داخلے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

سلوان کی رہائشی عمل سمیرہ نامی خاتون کا کہنا ہے کہ 'میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسرائیلی حکومت اور عدالت نے کس بنیاد پر ہمیں یہاں سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اسرائیلی عدالتیں اور حکومت ابسنٹی لاء کی آڑ میں ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ یہ قانون نسل پرستی پر مبنی ہے۔ میں اسے نہیں مانتی۔ یہ ایک انتہا پسندی والا قانون ہے'۔

انسانی حقوق سے وابستہ جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ معاملات میں مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کو ویسٹ بینک کے لوگوں سے بھی کم قانونی تحفظ حاصل ہے۔

جماعتوں کا مزید کہنا ہے کہ سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے دوران ہونے والی جنگ میں ہزاروں فلسطینی جو یہاں سے یا تو فرار ہو گئے یا انہیں بھاگنے پر مجبور کیا گیا، ان کی جائیداد کو 1950 میں بنائے گئے 'ایبسنٹی لاء' کے تحت اسرائیلی حکومت نے اپنے قبضے میں کر لیا۔ حالانکہ یہودی آباد کار اس الزام سے اختلاف رکھتے ہیں۔

سلوان میں ایک آبادکار تنظیم کے ایکزیکٹیو ڈائریکٹر دانیال لوریا کا کہنا ہے کہ 'یہ ایک یہودی ریاست ہے۔ البتہ یہاں موجود اقلتیوں کو تمام طرح کے سماجی حقوق حاصل ہیں۔ اگر آپ یروشلم جائیں تو دیکھیں گے کہ عرب اور یہودی ایک ساتھ ہنسی خوشی رہتے اور کام کرتے ہیں'۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو لوگوں کو اس قدر شکاتیں کیوں ہیں اور اب جبکہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کی طرح ویسٹ بینک کو بھی ضم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، اور اگر یہ منصوبہ عملی صورت اخیتار کرتا ہے تو یقینا کچھ اسی طرح کی پیچیدگیاں یہاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل کے ذریعہ مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے ہی فلسطینی مسلمانوں اور اسرائیلی یہودیوں کے درمیان کشیدگی اور چپقلش کا ماحول ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق سے وابستہ مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں ان معاملات پر زباں خرچی سے زیادہ کچھ نہیں کر رہی ہیں۔

اگر اسرائیل مقبوضہ ویسٹ بینک کے کچھ حصوں کو ضم کرتا ہے تو مستقبل میں ویسٹ بینک کے سماجی اور معاشرتی نتائج کیسے ہوں گے، اس سے متعلق کچھ بھی کہنا مشکل ہے، لیکن تقریبا 70 برس قبل مشرقی یروشلم کے ضم کے بعد یروشلم میں رہنے والے مسلم باشندوں کی باتیں یقینا تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ویڈیو

یروشلم کے نزدیکی علاقے سلوان میں رہنے والے ایک فلسطینی مسلمان جواد صیام نے بتایا کہ 'ایک فلسطینی کے طور پر اسرائیلی عدالتوں میں جانا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہاں یکطرفہ نظام ہے۔ خواہ عدالت ہو یا جج یا پھر حکومت، سب ایک جیسے ہیں۔ اور سیٹلمنٹ ایسوسی ایشن بالخصوص ایلعاد بہت زیادہ حاوی ہے۔ ایلعاد کے مطابق یہ یہودیوں کا شہر ہے، جس کا مطلب یہاں رہنے والے ہم فلسطینی لوگ مجرم ہیں'۔

خیال رہے کہ اسرائیلی رہنما دنیا بھر میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یروشلم بقائے باہمی کا ایک نمونہ ہے، جہاں یہودی اکثریت میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جواد صیام کا مزید کہنا ہے کہ 'دنیا سمجھتی ہے کہ یہاں کی زندگی بہت شاندار ہے، کیوں کہ فلسطینی اور اسرائیلی ایک ساتھ رہتے ہیں، لیکن یہاں ایک ساتھ رہنے والے عام اسرائیلی کے علاوہ ایسے آباد کاروں کے بارے میں بات کرتے ہیں گے، جن کا ماننا ہے کہ یہاں یہودیوں کی اکثریت ہونی چاہیے۔ یہ آبادکار آپ کا پڑوسی نہیں بلکہ ایک کے بعد ایک گھر بسانا چاہتا ہے'۔

یہاں رہنے والے بیشتر فلسطینی مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ ہے، تو کچھ لوگوں کو ان کے گھر سے جبرا بے دخل کیے جانے کا بھی خوف ہے، کیوں کہ انسانی حقوق کی کچھ جماعتوں کا ماننا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں اسرائیلی حکام نے یروشلم کے حساس علاقوں میں مکانات پر قبضہ کر لیا اور قانون کا غلط استعمال کر کے فلسطینی باشندوں کو بے دخل کرنے کے ساتھ ہی آباد کاروں کو یہاں داخلے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

سلوان کی رہائشی عمل سمیرہ نامی خاتون کا کہنا ہے کہ 'میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسرائیلی حکومت اور عدالت نے کس بنیاد پر ہمیں یہاں سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اسرائیلی عدالتیں اور حکومت ابسنٹی لاء کی آڑ میں ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ یہ قانون نسل پرستی پر مبنی ہے۔ میں اسے نہیں مانتی۔ یہ ایک انتہا پسندی والا قانون ہے'۔

انسانی حقوق سے وابستہ جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ معاملات میں مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کو ویسٹ بینک کے لوگوں سے بھی کم قانونی تحفظ حاصل ہے۔

جماعتوں کا مزید کہنا ہے کہ سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے دوران ہونے والی جنگ میں ہزاروں فلسطینی جو یہاں سے یا تو فرار ہو گئے یا انہیں بھاگنے پر مجبور کیا گیا، ان کی جائیداد کو 1950 میں بنائے گئے 'ایبسنٹی لاء' کے تحت اسرائیلی حکومت نے اپنے قبضے میں کر لیا۔ حالانکہ یہودی آباد کار اس الزام سے اختلاف رکھتے ہیں۔

سلوان میں ایک آبادکار تنظیم کے ایکزیکٹیو ڈائریکٹر دانیال لوریا کا کہنا ہے کہ 'یہ ایک یہودی ریاست ہے۔ البتہ یہاں موجود اقلتیوں کو تمام طرح کے سماجی حقوق حاصل ہیں۔ اگر آپ یروشلم جائیں تو دیکھیں گے کہ عرب اور یہودی ایک ساتھ ہنسی خوشی رہتے اور کام کرتے ہیں'۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو لوگوں کو اس قدر شکاتیں کیوں ہیں اور اب جبکہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کی طرح ویسٹ بینک کو بھی ضم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، اور اگر یہ منصوبہ عملی صورت اخیتار کرتا ہے تو یقینا کچھ اسی طرح کی پیچیدگیاں یہاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل کے ذریعہ مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے ہی فلسطینی مسلمانوں اور اسرائیلی یہودیوں کے درمیان کشیدگی اور چپقلش کا ماحول ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق سے وابستہ مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں ان معاملات پر زباں خرچی سے زیادہ کچھ نہیں کر رہی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.