تقریبا دو ہفتے قبل عراق میں ہونے والے عوامی مظاہرے کے دوران تقریبا ڈیڑھ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبر تھی۔
چند روز کے بعد ہی عراق کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ گذشتہ روز جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں 40 افراد کے ہلاک جبکہ 2 ہزارا سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
عراقی وزارت داخلہ کے مطابق بصرہ شہر میں سیکیورٹی اہلکاروں پر دستی بموں سے حملے کے سبب حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔
اس سلسلے میں عراقی جوڈیشل کونسل کا کہنا ہے کہ کہ فوج اور سیکیورٹی اداروں پر حملہ کسی بھی صورت میں ناقابل برداشت ہے۔ ان حملوں کے مجرمین کو سزائے موت دی جائے گی۔
ساتھ ہی شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود تخریب کاروں اور فسادیوں کے بارے میں سیکیورٹی اداروں کو مطلع کریں۔
ایک طرف ملک بھر میں حکومت کےخلاف لوگ سڑکوں پر ہیں، دوسری جانب ملک کے شیعہ اکثریتی شہر کربلا میں ایران کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران مظاہرین نے ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصاویر پھاڑ دیں۔
مظاہرین نے ایران کی سمندرپار کارروائیوں میں سرگرم القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ فی الحال کربلا میں کرفیو کی خبر ہے۔
دوسری جانب عراق کے حفاظتی دستوں پر الزام ہے کہ انہوں نے مظاہرین کو کچلنے لیے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا ہے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار سے دستبردار ہو اور ملک میں سیاسی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کیا جائے،کیونکہ اس نظام نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔