نیپال واضح طور پر بھارت سے دور ہوتا جارہا ہے۔وزیرِ اعظم کے پی اولی نے بھارت پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت انہیں کرسی سے گرانے کی کوشش کر رہا ہے،چونکہ انہوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذرئعہ با ضابطہ توثیق شدہ نیپال کا نیا نقشہ جاری کیا ہے،جس میں اُتراکھنڈ کے پتھوراگڈھ ضلع کے قریب چار سو مربع کلومیٹر بھارتی علاقہ پر دعویٰ جتایا گیا ہے۔وزیرِ اعظم اولی کے ان کے سینئیر ساتھیوں،طپُشپا کمال دہل ’پراچندا‘،مادھو کمار نیپال اور جھل ناتھ کھنال، جو تینوں سابق وزرائے اعظم بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے حکمراں کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو آڑھے ہاتھوں لیا ہے۔انہوں نے وزیرِ اعظم سے بھارت کے خلاف الزام کی حمایت میں معتبر ثبوت پیش کرنے کہا ہے اور اگر ثبوت پیش کرنے وہ میں ناکام ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں انہیں وزارتِ عظمیٰ اور پارٹی کے شریک چیرمین دونوں عہدوں سے استعفیٰ دینے کیلئے کہا ہے
ان سب سے حکمراں جماعت نیپال کمیونسٹ پارٹی میں چل رہی اندرونی رسہ کشی اور اسکے بھارت و دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔وزیرِ اعظم اولی کی مشکلات کی اصل وجہ انکا اپنے سینئر ساتھیوں کی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہے۔پارٹی کے شریک چیرمین پراچندا نے اولی پر اہم فیصلوں سے متعلق انہیں اعتماد میں نہیں لینے کا الزام لگاتے آئے ہیں۔گذشتہ ماہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے مذاکرات ہوئے تھے، تب مادھو نیپال کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ حالانکہ، وہپارٹی کے سفارتی تعلقات دیکھنے کے ذمہ دار ہیں۔اولی قواعدو ضوابط کے برعکس پارٹی میں دو عہدے سنبھالے ہوئے ہیں اور انہوں نے بیشتر انتظامی اور مالی امور براہِ راست یا اپنے مریدوں کے ذریعہ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وزیرِ اعظم اولی گورننس کے محاذ پر بھی ناکام رہے ہیں۔معاملہ کووِڈ19- بحران کا ہو، رشوت ستانی کا خاتمہ کرنے کا یا پھر تعمیرو ترقی کے وعدوں پر کھرا اُترنے کا ، وہ ہر معاملے میں ناکام رہے ہیں۔اس سب سے مولی کی سرکار اور حکمراں جماعت لوگوں میں بدنام ہوگئی ہے اور مستقبل میں پارٹی کی بنیادوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ مولی کو ایم سی سی پروگرام کے تحت نیپال کیلئے 500ملین ڈالر کی امریکی امداد کی حمایت کرنے کیلئے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وزیرِ اعظم اولی پارٹی میں اپنی تنہائی کو متوازن کرنے کیلئے حزبِ اختلاف کے قائدین اور چین سے مدد چاہنے کے علاوہ بھارت مخالف قوم پرستی کو اُجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے 2015میں نیا آئین مرتب کرنے کے وقت بھی ایسا ہی کیا ، سنہ 2017میں پارلیمانی انتخابات کے وقت بھی اور اب بھی نئے نقشے کے معاملے کو لیکر وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ایسے بھی اطلاعات ہیں کہ وزیرِ اعظم اولی کو حزبِ اختلاف کے نیپالی کانگریس صدر شیر بہادر دیوبا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دراصل اولی نیا نقشہ اور بھارتی علاقوں پر دعویٰ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ وہ بھارت مخالف نیپالی قوم پرستی کو جگا سکیں،اسکے ذریعہ زبردست قوم پرست ہیرو کے طور پر خود کو دکھا سکیں اور ساتھ ہی وہ خود اپنی پارٹی کے اندر اور باہر اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کیلئے اسکا استعمال کر رہے ہیں۔
اپنے حقیر سیاسی مقصد کیلئے نیپالی قوم پرستی کا استعمال کر پانے میں وزیرِ اعظم اولی کو تین عوامل سے مدد ملی ہے۔شروعات میں ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ابھی کا نیپال ایک نیا نیپال ہے۔ جو جوان، آرزو مند، پر اعتماد اور اپنی شناخت کے حوالے سے شدت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔نیپال کی 65 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ساتھ میں ایک جمہوری نظام سے بااختیار ہے، یہ تعلیم یافتہ، ہنر مند اور پراعتماد ملک ہے۔بھارت کے ساتھ تہذیبی اور ثقافتی تعلقات سے مرعوب نہیں ہے اور بھارت کے ساتھ خصوصی اور انوکھے روٹی – بیٹی تعلقات سے متاثر نہیں ہے۔وہ اپنی ترقی،آرام دہ زندگی اور آرزو مندی کیلئے بھارت کی امداد پر منحصر نہیں ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ بھارت اس گنتی میں چھوٹ گیا ہے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ بھارت نے گذشتہ سال سے نیپال میں ایسا کوئی ترقیاتی منصوبہ در دست نہیں کیا ہے، جو نیپالی نوجوانوں کو اپنی طرف رجوع کرتا ہو۔
بھارت کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو نیپال کے اندرونی معاملات کو غیر تسلی بخش ، لاتعلقی ، غرور اور زبردستی کی سفارت کاری کے ذریعہ ’مائیکرو منیج‘ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ستمبر 2015 میں نیپال کے آئینی عمل میں بھارت کی سخت مداخلت کو بھارتی وطیرہ کی حالیہ مثالوں کے بطور پر دیکھا جا رہا ہے،جس کے بعد پانچ ماہ تک معاشی ناکہ بندی ہوئی تھی اور جس سے نیپال میں معمول کی زندگی بکھر گئی تھی ۔بھارت کی ان سفارتی غلطیوں نے نیپال میں لوگوں کو اسکے تئیں بیگانگی کا شکار بنادیا ہے۔بھارت نے ساتھ ہی 2015 سے کمیونسٹ پارٹی آف نیپال اور وزیرِ اعظم اولی کی قیادت کی حمایت نہیں کی۔ حالانکہ نیپال کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آنے کے بعد بھارت نے اب نیپالی حکومت کے تئیں نرم روی دکھانا شروع کیا ہے۔اس نے ساتھ ہی کئی زیرِ التوا منصوبوں،بشمولِ سڑک و ریل روابط اور تیل پائپ لائن، پر کام کو تیز کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سے حکمراں طبقہ یا نیپالی قوم پرستی کی بھارت مخالف سمت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔
چین نے نیپال میں بھارت کے تئیں بڑھتی ہوئی بےگانگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اس نے نیپال کو چینی بندرگاہوں کے ذریعہ نیپال کو تجارت کی متبادل راہداریاں پیشکش کیں اور ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو‘ (بی آر آئی) کے ذریعہ نیپال میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کی۔چین نے اپنے وسیع سرمایہ اور دیگر ذرائع سے نیپال میں سیاسی بد عنوانی کو فروغ دیا اور حکمراں کمیونسٹ پارٹی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پورے سیاسی میدان میں کو بدل دیا۔نیپالی ذرائع ابلاغ نے حالیہ مہینوں میں نیپال میں چینی سفیر کو کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں سے ملتے اور اولی کی سرکار کو مستحکم بنانے کیلئے انکے آپسی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا ہے۔چونکہ چین نے سنہ 1954 اور سنہ 2015 میں لیپولیکھ کو بھارت اور چین کے درمیان تجارتی و تہذیبی راہداری کی رابطہ کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے، اس لیے وہ کالا پانی اور نئے نقشے کو لیکر کھلے عام نیپال کی حمایت نہیں کرسکتا ہے۔تاہم نیپال کا یہ دعویٰ چینی مفادات کے موافق ہے اور بھارت-نیپال اختلافات چین کو نیپال میں اپنی اقتصادی اور اسٹریٹجک پوزیشن مستحکم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
حالانکہ بھارت نیپال کے ساتھ مضبوط تہذیبی،سماجی اور اقتصادی تعلقات رکھتا ہے لیکن ان سب کے باوجود بھی نیپال میں چینی اثرو نفوس کو کم کرنے میں اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔موجودہ صورتحال میں بھارت کو نیپال کے تئیں اپنے وطیرہ پر نظرِ ثانی کرکے اسے مکمل طور پر بدل دینا چاہیئے۔ بھارت کو اپنے ہمالیائی ہمسایہ کے یہاں ابھرتی ہوئی سیاسی صورتحال کے حوالے سے اپنی سفارتکاری کو مزید حساس اور ’اکوموڈیٹیو‘ بنانے کی ضرورت ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کی اپنے ہمالیائی پڑوسیوں کے ساتھ مصروفیت کے حوالے سےجارحانہ چین ہمیشہ ہی ایک چلینج بن کے سامنے آیا ہے۔
ایس ڈی مُنی(پروفیسر،جواہر لال نہرو یونیورسٹی)