پاکستان میں گذشتہ ماہ ہونے والے کراچی طیارہ حادثے کی عبور رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ طیارہ حادثے کے لیے پائلٹ، کیبن کریو اور اے ٹی سی ذمہ دار ہے۔
پاکستان کے وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق طیارہ پرواز کے لیے مکمل طور پر درست تھا۔ پائلٹز بھی طبی طور پر جہاز اڑانے کے اہل تھے اور پرواز کے دوران پائلٹز نے کسی قسم کی تکنیکی خرابی کی نشاندہی بھی نہیں کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ائیر ٹریفک کنٹرولر نے پائلٹز کو 3 بار طیارہ لینڈنگ کرانے سے منع کیا اور ایک چکر مزید لگانے کے لیے کہا، لیکن پائلٹز نے ائیر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظر انداز کیا، رن وے سے 10 میل کے فاصلے پر جہاز کو 2500 فٹ پر اڑنا چاہیے تھا، لیکن اس وقت طیارہ 7220 فٹ کی بلندی پر تھا اور یہ پہلی خلاف ورزی تھی، جہاز کے لینڈنگ گیئر 10 ناٹیکل مائلز پر کھولے گئے، 5 ناٹیکل مائلز پر پہنچنے کے بعد لینڈنگ گیئر پھر اوپر کر لیے گئے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 1500 سے 3 ہزار فٹ پر جہاز رن وے کو ٹچ کر سکتا ہے۔ رن وے پر انجن رگڑنے سے طیارہ متاثر ہوا اور آگ نکلی، پائلٹ نے پھر ہدایات کو نظر انداز کر کے جہاز اوپر کرلیا، یہاں کنٹرولر کی بھی غلطی تھی اسے پائلٹ کو بتانا چاہیے تھا، جہاز جب اوپر اٹھایا تو دونوں انجنز متاثر ہو چکے تھے، دوبارہ اس نے لینڈنگ کی اجازت مانگی، اسے اجازت دی گئی، لیکن بد قسمتی سے طیارہ رن وے تک نہ پہنچ سکا اور لینڈنگ سے پہلے ہی حادثے کا شکار ہو گیا۔ پائلٹ اور کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا، آخری الفاظ پائلٹ نے تین بار یا اللہ ادا کیے۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ پائلٹ اور کو پائلٹ کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، ساری گفتگو کورونا پر کر رہے تھے، کنٹرولر کی کال بھی جلدی میں سن کے کہا گیا میں مینیج کر لوں گا، زیادہ خود اعتمادی دیکھنے کو ملی، پائلٹ نے جہاز کو آٹو کنٹرول سے مینوئل پر منتقل کیا۔
انہوں نے کہا کہ عبوری رپورٹ سے قطع نظر صاف شفاف انکوائری جاری ہے، انکوائری میں سینئر پائلٹز کو بھی شامل کیا گیا ہے، تاہم حادثے کی مکمل رپورٹ تیار ہونے میں مزید ایک برس کا وقت درکار ہے۔ اس سلسلے میں وہ عدالت کو بھی تمام حقائق سے آ گاہ کر رہے ہیں اور حادثے کے ذمے داروں کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہو گی۔