آج یعنی 12 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔
اس مذکرات میں امریکی نمائندگی کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو، بین افغان امن مذاکرات وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی دوحہ میں آمد ہوچکی ہے۔
وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے کہا کہ وہ ایک منصفانہ اور باوقار امن کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'ہم ایک منصفانہ، پائیدار اور باوقار امن کے خواہاں ہیں۔ میں اپنے بین الاقوامی دوستوں اور علاقائی ممالک کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے باہمی سلامتی، استحکام اور امن میں اضافہ کرتے ہوئے اب تک امن معاہدہ کی حمایت کی ہے۔ اللہ پاک ہمیں عقل عطا فرمائے'۔
بین افغان امن مذاکرات کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے امید ظاہر کی ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت سے قریب دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوگا۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ 'امن معاہدہ کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار ہوگی اور شورش و کشیدگی میں بھی کمی آئے گی'۔
خلیل زاد نے کہا 'امید ہے کہ (افغانستان حکومت اور طالبان) ایک طویل سیاسی جنگ کے خاتمے کے لئے ایک سیاسی روڈ میپ پر سمجھوتہ کریں گے '۔
خلیل زاد نے ایک کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ مذاکرات دونوں کے لئے امتحان ثابت ہوں گے'۔
- امریکی مصالحت:
خصوصی ایلچی نے مزید کہا کہ 'امریکہ دونوں فریقوں کی نگرانی اور آپسی مصالحت کے لیے اپنا تعاون فراہم کرے گا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو اس پروگرام میں شرکت کے لئے قطری دارالحکومت دوحہ پہنچ گئے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے امریکہ بالآخر اپنی طویل ترین جنگ سے دستبردار ہوجائے گا۔
سیاسی تجزیہ نگاران کا ماننا ہے کہ تین نومبر کو منعقد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے ضمن میں ایک اہم کامیابی قرار دیا گیا جاسکتا ہے۔
- بین افغان امن مذاکرات میں بھارت کا کردار؟
قطری دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ اس تقریب میں بھارت کی موجودگی کی توقع کی جارہی ہے۔ اس تاریحی موقع پر 30 مختلف ممالک کے نمائندگان بھی موجود رہیں گے۔ بھارتی نمائندہ کی اس تقریب میں موجودگی کے سلسلے میں حکومتی ذرائع سے تاحال کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔
بھارت، افغانستان میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتا رہے ہے۔ اس لیے سیاسی تجزیہ نگاران کا کہنا ہے کہ اس مذاکرات میں بھارت کی شرکت اور موثر کردار ایک فطری بات ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے یہ سفارتکاری کا ایک نیا مرحلہ ہے۔ اسے گزشتہ 18 برس سے کشیدگی کو ختم کرنے کی سمت اہم پیش رفت کہا جارہا ہے۔
- مزید پڑھیں: بین افغان مذاکرات کیلئے طا لبان مشروط رضامند
بین افغان امن مذاکرات کے تحت طالبان اور افغان حکومت نے اس سے قبل 29 فروری کو بھی کئی مذاکرات کئے لیکن وہ آگے نہیں بڑھ سکے۔