ETV Bharat / international

بھارت اور پاکستان کے مابین انڈس کمشنرز کی میٹنگ ختم

دو روزہ میٹنگ میں پاکستان نے جموں و کشمیر میں پاپل دُل اور لوور کلنائی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراض کیا اور ان منصوبوں کے متعلق مزید تفصیلات کا مطالبہ کیا ہے۔

author img

By

Published : Mar 25, 2021, 11:52 AM IST

indus
indus

بھارت اور پاکستان کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کے متعلق دہلی میں منعقدہ دو روزہ نشست کا بدھ کو اختتام ہوا۔ اس دوران پاکستان نے جموں و کشمیر میں پاپل دُل اور لوور کلنائی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراض کیا حالانکہ بھارت نے ان منصوبوں کے دیزائن کو جائز قرار دیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان اس میٹنگ میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت مختلف معاملات پر بات چیت ہوئی۔ یہ میٹنگ دو سالوں بعد منعقد کی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ نشست 2018 میں ہوئی تھی۔

اجلاس میں بھارتی نمائندوں کی قیادت بھارت کے انڈس کمیشن کے کمشنر یو کے سکسینا نے کی۔ ان کے ساتھ مرکزی آبی کمیشن، مرکزی الیکٹریسٹی پروجیکٹ اور نیشنل واٹر الیکٹریکل انرجی کارپوریشن کے صلاح کار موجود تھے۔

پاکول دُل منصوبہ (ایک ہزار میگا واٹ) کشمیر کے کشتواڑ میں دریائے چناب سے متصل دریائے مروسودر پر بنانے کی تجویز ہے جبکہ لوور کلنائی، کشتواڑ اور ڈوڈہ ضلع میں بنانے کی تجویز ہے۔

پاکستان کی جانب سے پیر کی شام پہنچے نمائندوں کی قیادت انڈس کمشنر سید محمد مہر علی شان نے کی۔

اگست 2019 میں کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لیے جانے کے بعد سے دونوں ممالک کے کمشنروں کے درمیان یہ پہلی نشست ہے۔ یہ میٹنگ اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی فوج نے سرحد پر جنگ بندی کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سال 2019 میں جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنا دیئے گئے ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے رشتے کشیدہ ہو گئے تھے۔

بھارت نے ان علاقون میں مختلف ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کو منظوری دی ہے۔

ان میں لیہہ کے لیے ڈربوک شیوک (19 میگاواٹ)، شانکو (18.5 میگاواٹ)، نیمو چیلنگ (24 میگاواٹ)، رونگاڈو (12 میگاواٹ)، رتن ناگ (10.5 میگاواٹ) جبکہ کرگل کے لیے منگدوم سانگرا (19 میگاواٹ)، کرگل ہوندیرمن (25 میگاوٹ) اور تماشا(12 میگاوٹ) منصوے شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے ان منصوبوں کے متعلق مزید تفصیلات کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے قبل میٹنگ مارچ 2020 میں ہونی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس منسوخ کر دیا گیا تھا۔

انڈس واٹر ٹریٹی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لیے بھارت نے جولائی 2020 میں پاکستان کو ڈیجیٹل میٹنگ کی تجویز پیش کی تھی لیکن پاکستان اٹاری بارڈر چوکی پر ہی ملاقات کے لیے اڑا تھا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سنہ 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے کی دفعات کے مطابق مشرقی دریاؤں، بیاس، راوی، ستلج کے پانی پر بھارت کا اور مغربی دریاؤں، سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کے متعلق دہلی میں منعقدہ دو روزہ نشست کا بدھ کو اختتام ہوا۔ اس دوران پاکستان نے جموں و کشمیر میں پاپل دُل اور لوور کلنائی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراض کیا حالانکہ بھارت نے ان منصوبوں کے دیزائن کو جائز قرار دیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان اس میٹنگ میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت مختلف معاملات پر بات چیت ہوئی۔ یہ میٹنگ دو سالوں بعد منعقد کی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ نشست 2018 میں ہوئی تھی۔

اجلاس میں بھارتی نمائندوں کی قیادت بھارت کے انڈس کمیشن کے کمشنر یو کے سکسینا نے کی۔ ان کے ساتھ مرکزی آبی کمیشن، مرکزی الیکٹریسٹی پروجیکٹ اور نیشنل واٹر الیکٹریکل انرجی کارپوریشن کے صلاح کار موجود تھے۔

پاکول دُل منصوبہ (ایک ہزار میگا واٹ) کشمیر کے کشتواڑ میں دریائے چناب سے متصل دریائے مروسودر پر بنانے کی تجویز ہے جبکہ لوور کلنائی، کشتواڑ اور ڈوڈہ ضلع میں بنانے کی تجویز ہے۔

پاکستان کی جانب سے پیر کی شام پہنچے نمائندوں کی قیادت انڈس کمشنر سید محمد مہر علی شان نے کی۔

اگست 2019 میں کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لیے جانے کے بعد سے دونوں ممالک کے کمشنروں کے درمیان یہ پہلی نشست ہے۔ یہ میٹنگ اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی فوج نے سرحد پر جنگ بندی کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سال 2019 میں جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنا دیئے گئے ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے رشتے کشیدہ ہو گئے تھے۔

بھارت نے ان علاقون میں مختلف ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کو منظوری دی ہے۔

ان میں لیہہ کے لیے ڈربوک شیوک (19 میگاواٹ)، شانکو (18.5 میگاواٹ)، نیمو چیلنگ (24 میگاواٹ)، رونگاڈو (12 میگاواٹ)، رتن ناگ (10.5 میگاواٹ) جبکہ کرگل کے لیے منگدوم سانگرا (19 میگاواٹ)، کرگل ہوندیرمن (25 میگاوٹ) اور تماشا(12 میگاوٹ) منصوے شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے ان منصوبوں کے متعلق مزید تفصیلات کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے قبل میٹنگ مارچ 2020 میں ہونی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس منسوخ کر دیا گیا تھا۔

انڈس واٹر ٹریٹی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لیے بھارت نے جولائی 2020 میں پاکستان کو ڈیجیٹل میٹنگ کی تجویز پیش کی تھی لیکن پاکستان اٹاری بارڈر چوکی پر ہی ملاقات کے لیے اڑا تھا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سنہ 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے کی دفعات کے مطابق مشرقی دریاؤں، بیاس، راوی، ستلج کے پانی پر بھارت کا اور مغربی دریاؤں، سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.