سوال: دوحہ میں منعقدہ دستخطی تقریب میں بھارت کی شرکت اور معاہدہ سے بھارت کے خدشات کیا ہیں۔
جواب: بھارت کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وہاں انتشار پھیل سکتا ہے اور دہشت گردوں کو فروغ پانے کا موقع فراہم ہوسکتا ہے جو عالمی سلامتی کےلیے بڑا خطرہ ہوسکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس امن معاہدہ کا سہرہ پاکستان اپنے سر باندھنا چاہتا ہے لہذا وہ مشرقی سرحد پر آزادانہ اختیار حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔
سوال: عمران خان کو وائٹ ہاوز میں ٹرمپ کے ساتھ دیکھاگیا اور ڈاوس، نئی دہلی میں ٹرمپ نے عمران خان اور نریندر مودی کو ایک اچھا دوست قرار دیا ہے، پاکستان نے امریکہ اور طالبان کو امن معاہدہ کےلیے ایک میز پر جمع کرنے کےلیے اہم رول ادا کیا ہے۔ ایسے میں کیا امریکہ پاکستان پر کسی مسئلہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
جواب: بیشک امریکہ راست یا بالراست ، پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے، مثال کے طور پر مسعود اظہر کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنا، ایف اے ٹی ایف یا آئی ایم ایف کے ذریعہ دباؤ ڈالنا۔ امریکہ کے پاس ایسے کئی ہتھکنڈے موجود ہے جس سے وہ امریکہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
سوال: بھارت نے طالبان کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کرنے کےلیے کافی وقت لیا ہے اور سابقہ ماسکو امن معاہدہ کامیاب نہ ہوسکا ایسے میں کیا بھارت طالبان پر اثرانداز ہونے کےلیے روس یا ایرانی روابط کا استعمال کرسکتا ہے۔
جواب: امریکیوں کے خلاف بنائی گئی حکمت عملی کے تحت ایران نے طالبانی عناصر کے ساتھ روابط رکھے ہیں کیونکہ وہ امریکی موجودگی کو پسند نہیں کرتا جبکہ وہ ماضی میں طالبان کا دشمن تھا۔ روس، افغانستان میں عدم استحکام سے کافی پریشان ہے، خاص کر افغانستان سے کی جانے والی منشیات کی تحارت سے ، اسی لئے روس نے طالبان سے بہتر روابط رکھے ہیں۔ ایسے میں مجھے لگتا ہے کہ بھارت امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو افغانستان پر استعمال کرسکتا ہے۔