ETV Bharat / international

چین فوجی طاقت بڑھانے میں مصروف - article Lt Gen (Retd) D S Hooda

چین میں کمیونسٹ حکمرانی کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر جشن منایا گیا جس میں پیپلز لبریشن آرمی کی جانب سے اپنی بے پناہ طاقت کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ تینانمن اسکوائر پر منعقد پریڈ میں 15 ہزار سے زائد فوجی جوانوں نے سینکڑوں ٹینکس کے ساتھ حصہ لیا جبکہ اس پریڈ کے موقع پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے دفاعی نظام کو بھی پیش کیا گیا.ای ٹی وی بھارت کیلئے اس منظرنامے کا خصوصی تجزیہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈی ایس ہوڈا نے کیا۔

بھارت کو اپنا رخ منتخب کرنا ہوگا
author img

By

Published : Oct 9, 2019, 9:07 PM IST

Updated : Oct 10, 2019, 1:30 PM IST

چین نے پریڈ میں ہائپرسانک ٹیکنالوجی کی حامل ڈی ایف 41 اور ڈی ایف 17 مزائلز کو بھی شامل کیا۔ ڈی ایف 41 مزائل 25 مچ کی رفتار کا حامل ہے جبکہ اس کے ذریعہ 15 ہزار کلومیٹر پر نشانہ لگایا جاسکتا۔ اس مزائل کی اور ایک صلاحیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی لانچنگ کے صرف 30 منٹ کے اندر امریکہ پر متعدد وارہیڈ سے حملہ کرسکتا ہے۔
ڈی ایف 17 ایک ہائپرسانک گلائیڈ وہیکل ہے جو آواز کی رفتار سے پانچ گناہ تیز سفر کرتا ہے اور اس میں پائی جانے والی لچک کی وجہ سے اسے مارگرانا دشمن کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔

امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے نائب صدر جنرل جان ہیٹن نے مارچ 2018 میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہمارے دشمن کے پاس موجود اسلحہ سے بچنے کے لیے ہمارے پاس معقول دفاعی نظام موجود نہیں ہے۔ انہوں نے چین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'چین کے پاس انتہائی خطرناک نوعیت کا اسلحہ موجود ہے۔'

پیپلز لبریشن آرمی نے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ایسے طیارے اور مزائلز کی نمائش کی جسے بغیر انسان کی مدد سے اڑایا اور کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
گونگجی11 بغیر پائلٹ کا فضائی طیارہ ہے جو بغیر کسی رڈار میں آئے خفیہ طور پر اپنے دشمن پر نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس موقع پر چین نے جاسوسی پر مبنی سپرسانک ڈرون ڈی آر 8 کو بھی منظر عام پر لایا جو 4 مچ کی رفتار سے پراوز کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

چینی بحریہ کی جانب سے پریڈ میں ایچ ایس یو۔001 کو شامل کیا جو بغیر پائلٹ کی مدد سے پانی کے اندر آبدوز اور دشمنوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اسے چین کے مشرقی جنوبی ساحل پر تعینات کیا جائے گا۔ بحری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے بھی تعینات کیا جائے گا۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پی ایل اے مشن 2035 کے تحت اپنی فوجی جدیدکاری کی طرف گامزن ہے۔ ایک موثر فوج کا اندازہ صرف ہتھیاروں کے نظام کے ذریعہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ جنگ کے لیے اس کا تنظیمی ڈھانچہ، تربیت کا معیار، فوجی اہلکاروں کی پالیسی، دیسی دفاعی پیداوار اور سول ملٹری انضمام سے بھی ہوتا ہے اور گذشتہ برسوں میں چین نے ان تمام زمرے میں مستقل پیشترفت حاصل کی ہے۔

نومبر 2015 میں،صدر ژی چن پنگ نے پلینری سیشن میں قومی دفاع اور فوجی اصلاحات کے لیے پی ایل اے کی تنظیم نو کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد صدر ژی چن پنگ نے ستمبر میں پی ایل اے میں تین لاکھ فوجی اہلکاروں کی کمی کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
فروری 2016 میں کچھ داخلی مزاحمت کے باوجود سات فوج کو پانچ تھیٹر کمانڈ کرکے تنظیم جدید کی گئی اور چار پی ایل اے جنرل محکمے کو 15 تنظیموں میں تبدیل کردیا گیا جو مرکزی ملیٹری کمیشن کے تحت کام کریں گے۔ یہ صرف فوج کی بنیادی اصلاحات کو تنظیم نو کرنے کا آغاز تھا تاکہ فوج کے مشترکہ آپریشن کرنے کی صلاحیت کو ابھارنے، الیکٹرونک جنگ اور سائبراسپیس آپریشن کو بہتر انداز میں انجام دینے کے قابل بنایا جاسکے۔

پی ایل اے کے جنگی تجربے کے کمی کو چینی صدر 'امن کا کیڑا' سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ایک طرف چینی صدر جدید جنگی مقابلے کی صلاحتیوں کے بارے میں تشویش کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ اپنے تربیت کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق گذشتہ برس پی ایل اے نے' آؤٹ لائن آف ٹریننگ اینڈ ایولویشن' ٹرینگ کی تھی جس میں حقیقت پسندی اور مشترکہ ٹریننگ پر توجہ دی گئی تھی۔ اگرچہ ابھی بھی پی ایل اے کو دنیا کے جدید فوج سے مقابلہ کرنے کے لیے طویل سفر طے کرنا ہے لیکن وہ اپنی کمزوری کو تسلیم کرتی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے۔

چین نے دفاعی شعبہ میں جس قدر ترقی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہر برس دفاع پر مبنی جریدہ نکلتا ہے جو دنیا کے 100 اہم ترین دفاعی فرموں کی فہرست کو شائع کرتا ہے۔ گذشتہ برس اس فہرست میں ایک بھی چینی فرمز موجود نہیں تھی لیکن سال 2019 میں چھ چینی کمپنیوں کو اس فہرست میں پہلے 15 نمبر پر جگے ملی۔ چین نے دفاعی ہتھیاروں کے میدان میں خود کا لوہا منوایا ہے اور دینا کی سب سے بہترین میزائل بنانے میں بھی وہ سرفہرست ہے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ آف اسٹراٹیجک اسٹڈیس کے مطابق سال 2014 اور 2018 کے مابین چین نے جرمنی، بھارت، اسپین، برطانیہ اور تائیون کی بحری جہازوں کی تعداد کے مقابلے میں زائد آبدوزیں اور جنگی جہازوں کی تیاری کی ہے۔

پی ایل اے کے نئے جنگی ٹیکنالوجی کو جامع سول ملٹری انضمام کی حمایت حاصل ہے جو ابھرتی ہوئی جدید ٹیکنالوجی کی ترقی میں دفاع اور شہری صنعت کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔سول سیکٹر کی دفاعی پیداوار میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے کئی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں جیسے کہ آرٹی فیشیل انٹیلی جنس اپلیکیشن پر ریسرچ کے لیے تعلیمی ادارے سینگھوا یونیورسٹی کو مرکزی ملیٹرری کمیشن اور ٹیکنالوجی کمیشن کے ساتھ شراکت میں ہے۔

پی ایل اے کی فوجی قابلیت میں اضافہ چین کو طاقتور ملک بنانے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ چین کے جاریہ سفر اور اس کی منزل کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چین، امریکہ سے مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہے جبکہ خود امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل جوسیف ڈنفورڈ نے قبل ازیں کہا تھا کہ شاید 2025 تک چین، امریکہ کےلیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔ اس بات کا متعدد امریکی عہدیداروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان اگر کوئی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر ایشیا پڑے گا جبکہ ہندوستان کو اپنا موقف منتخب کرنے میں کافی دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔

جان جے مئیرشیمر نے اپنی کتاب ٹراجیڈی آف گریڈ پاور پالیٹیکس میں جارحانہ حقیقت پسندی کا نظریہ پیش کرتے ہوئے چین کے پرامن عروج کے طویل مدتی امکان کے بارے میں کہا کہ

'اگر چین معاشی طور پر اسی طرح ترقی کرتے رہی تو چین اس طرح ایشاء میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جس طرح امریکہ نے مغربی نصف کردہ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تھی ۔حالانکہ امریکہ چین کو علاقائی تسلط حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔بیجینگ کے بیشتر ممالک بشمول بھارت، سنگاپور، جاپان، جنوبی کوریا، روس اور ویتنام چین کو روکنے کے لیے امریکہ کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔جس کے نتیجہ میں زبردست سیکورٹی مقابلہ ہونے کے امکان ہیں۔مختصر انداز میں کہیں تو چین کے عروج سے پرسکون امکان پیدا نہیں ہوں گے'۔
مئیرشیمر کی تشخیص مکمل طور پر درست نہیں ہوسکتی، لیکن ایک بڑھتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے چینی تسلط کے خلاف بھارت کی مزاحمت ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔اس جدید جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے قابل بھارتی فوج کی ضرورت ہوگئی جو منظم ہو اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہو۔فی الحال بھارتی فوج کے استعمال میں آنے والی ہر شئے پر اشتہار بازی ہورہی ہے، جس سے اکثر اس میں موجود سنگین خامیاں، ہتھیاروں کو بنانے کے عمل میں دیسی ساخت کی سست رفتار کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔چین کی فوجی جدید کاری کے عمل سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔

(مصنف شمالی کمان کے سربراہ رہے ہیں۔ انکی قیادت میں سنہ 2016 میں سرجیکل اسٹرائک کی گئی تھی)

چین نے پریڈ میں ہائپرسانک ٹیکنالوجی کی حامل ڈی ایف 41 اور ڈی ایف 17 مزائلز کو بھی شامل کیا۔ ڈی ایف 41 مزائل 25 مچ کی رفتار کا حامل ہے جبکہ اس کے ذریعہ 15 ہزار کلومیٹر پر نشانہ لگایا جاسکتا۔ اس مزائل کی اور ایک صلاحیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی لانچنگ کے صرف 30 منٹ کے اندر امریکہ پر متعدد وارہیڈ سے حملہ کرسکتا ہے۔
ڈی ایف 17 ایک ہائپرسانک گلائیڈ وہیکل ہے جو آواز کی رفتار سے پانچ گناہ تیز سفر کرتا ہے اور اس میں پائی جانے والی لچک کی وجہ سے اسے مارگرانا دشمن کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔

امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے نائب صدر جنرل جان ہیٹن نے مارچ 2018 میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہمارے دشمن کے پاس موجود اسلحہ سے بچنے کے لیے ہمارے پاس معقول دفاعی نظام موجود نہیں ہے۔ انہوں نے چین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'چین کے پاس انتہائی خطرناک نوعیت کا اسلحہ موجود ہے۔'

پیپلز لبریشن آرمی نے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ایسے طیارے اور مزائلز کی نمائش کی جسے بغیر انسان کی مدد سے اڑایا اور کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
گونگجی11 بغیر پائلٹ کا فضائی طیارہ ہے جو بغیر کسی رڈار میں آئے خفیہ طور پر اپنے دشمن پر نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس موقع پر چین نے جاسوسی پر مبنی سپرسانک ڈرون ڈی آر 8 کو بھی منظر عام پر لایا جو 4 مچ کی رفتار سے پراوز کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

چینی بحریہ کی جانب سے پریڈ میں ایچ ایس یو۔001 کو شامل کیا جو بغیر پائلٹ کی مدد سے پانی کے اندر آبدوز اور دشمنوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اسے چین کے مشرقی جنوبی ساحل پر تعینات کیا جائے گا۔ بحری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے بھی تعینات کیا جائے گا۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پی ایل اے مشن 2035 کے تحت اپنی فوجی جدیدکاری کی طرف گامزن ہے۔ ایک موثر فوج کا اندازہ صرف ہتھیاروں کے نظام کے ذریعہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ جنگ کے لیے اس کا تنظیمی ڈھانچہ، تربیت کا معیار، فوجی اہلکاروں کی پالیسی، دیسی دفاعی پیداوار اور سول ملٹری انضمام سے بھی ہوتا ہے اور گذشتہ برسوں میں چین نے ان تمام زمرے میں مستقل پیشترفت حاصل کی ہے۔

نومبر 2015 میں،صدر ژی چن پنگ نے پلینری سیشن میں قومی دفاع اور فوجی اصلاحات کے لیے پی ایل اے کی تنظیم نو کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد صدر ژی چن پنگ نے ستمبر میں پی ایل اے میں تین لاکھ فوجی اہلکاروں کی کمی کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
فروری 2016 میں کچھ داخلی مزاحمت کے باوجود سات فوج کو پانچ تھیٹر کمانڈ کرکے تنظیم جدید کی گئی اور چار پی ایل اے جنرل محکمے کو 15 تنظیموں میں تبدیل کردیا گیا جو مرکزی ملیٹری کمیشن کے تحت کام کریں گے۔ یہ صرف فوج کی بنیادی اصلاحات کو تنظیم نو کرنے کا آغاز تھا تاکہ فوج کے مشترکہ آپریشن کرنے کی صلاحیت کو ابھارنے، الیکٹرونک جنگ اور سائبراسپیس آپریشن کو بہتر انداز میں انجام دینے کے قابل بنایا جاسکے۔

پی ایل اے کے جنگی تجربے کے کمی کو چینی صدر 'امن کا کیڑا' سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ایک طرف چینی صدر جدید جنگی مقابلے کی صلاحتیوں کے بارے میں تشویش کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ اپنے تربیت کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق گذشتہ برس پی ایل اے نے' آؤٹ لائن آف ٹریننگ اینڈ ایولویشن' ٹرینگ کی تھی جس میں حقیقت پسندی اور مشترکہ ٹریننگ پر توجہ دی گئی تھی۔ اگرچہ ابھی بھی پی ایل اے کو دنیا کے جدید فوج سے مقابلہ کرنے کے لیے طویل سفر طے کرنا ہے لیکن وہ اپنی کمزوری کو تسلیم کرتی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے۔

چین نے دفاعی شعبہ میں جس قدر ترقی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہر برس دفاع پر مبنی جریدہ نکلتا ہے جو دنیا کے 100 اہم ترین دفاعی فرموں کی فہرست کو شائع کرتا ہے۔ گذشتہ برس اس فہرست میں ایک بھی چینی فرمز موجود نہیں تھی لیکن سال 2019 میں چھ چینی کمپنیوں کو اس فہرست میں پہلے 15 نمبر پر جگے ملی۔ چین نے دفاعی ہتھیاروں کے میدان میں خود کا لوہا منوایا ہے اور دینا کی سب سے بہترین میزائل بنانے میں بھی وہ سرفہرست ہے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ آف اسٹراٹیجک اسٹڈیس کے مطابق سال 2014 اور 2018 کے مابین چین نے جرمنی، بھارت، اسپین، برطانیہ اور تائیون کی بحری جہازوں کی تعداد کے مقابلے میں زائد آبدوزیں اور جنگی جہازوں کی تیاری کی ہے۔

پی ایل اے کے نئے جنگی ٹیکنالوجی کو جامع سول ملٹری انضمام کی حمایت حاصل ہے جو ابھرتی ہوئی جدید ٹیکنالوجی کی ترقی میں دفاع اور شہری صنعت کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔سول سیکٹر کی دفاعی پیداوار میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے کئی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں جیسے کہ آرٹی فیشیل انٹیلی جنس اپلیکیشن پر ریسرچ کے لیے تعلیمی ادارے سینگھوا یونیورسٹی کو مرکزی ملیٹرری کمیشن اور ٹیکنالوجی کمیشن کے ساتھ شراکت میں ہے۔

پی ایل اے کی فوجی قابلیت میں اضافہ چین کو طاقتور ملک بنانے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ چین کے جاریہ سفر اور اس کی منزل کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چین، امریکہ سے مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہے جبکہ خود امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل جوسیف ڈنفورڈ نے قبل ازیں کہا تھا کہ شاید 2025 تک چین، امریکہ کےلیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔ اس بات کا متعدد امریکی عہدیداروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان اگر کوئی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر ایشیا پڑے گا جبکہ ہندوستان کو اپنا موقف منتخب کرنے میں کافی دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔

جان جے مئیرشیمر نے اپنی کتاب ٹراجیڈی آف گریڈ پاور پالیٹیکس میں جارحانہ حقیقت پسندی کا نظریہ پیش کرتے ہوئے چین کے پرامن عروج کے طویل مدتی امکان کے بارے میں کہا کہ

'اگر چین معاشی طور پر اسی طرح ترقی کرتے رہی تو چین اس طرح ایشاء میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جس طرح امریکہ نے مغربی نصف کردہ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تھی ۔حالانکہ امریکہ چین کو علاقائی تسلط حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔بیجینگ کے بیشتر ممالک بشمول بھارت، سنگاپور، جاپان، جنوبی کوریا، روس اور ویتنام چین کو روکنے کے لیے امریکہ کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔جس کے نتیجہ میں زبردست سیکورٹی مقابلہ ہونے کے امکان ہیں۔مختصر انداز میں کہیں تو چین کے عروج سے پرسکون امکان پیدا نہیں ہوں گے'۔
مئیرشیمر کی تشخیص مکمل طور پر درست نہیں ہوسکتی، لیکن ایک بڑھتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے چینی تسلط کے خلاف بھارت کی مزاحمت ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔اس جدید جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے قابل بھارتی فوج کی ضرورت ہوگئی جو منظم ہو اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہو۔فی الحال بھارتی فوج کے استعمال میں آنے والی ہر شئے پر اشتہار بازی ہورہی ہے، جس سے اکثر اس میں موجود سنگین خامیاں، ہتھیاروں کو بنانے کے عمل میں دیسی ساخت کی سست رفتار کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔چین کی فوجی جدید کاری کے عمل سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔

(مصنف شمالی کمان کے سربراہ رہے ہیں۔ انکی قیادت میں سنہ 2016 میں سرجیکل اسٹرائک کی گئی تھی)

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Oct 10, 2019, 1:30 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.