جاپان پر ہونے والے جوہری حملے کی آج 75 ویں برسی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی کو نیوکلیائی ہتھیار سے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سنہ 1945 میں 6 اور 9 اگست کو جاپان پر امریکہ نے نیوکلیائی ہتھیاروں سے حملہ کر کے دونوں شہروں کو تباہ کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر برس جاپان میں ان دو دنوں کو غم کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
آج سے 75 برس قبل ایک ایسا دور تھا، جب جاپان اور امریکہ کے رشتے بدستور خراب تھے، لیکن وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ کئی دہائیاں گزر گئیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ حالات میں تبدیلی آئی اور آج امریکہ جاپان کا بے حد قریبی شریک کار بن گیا ہے۔
دونوں ممالک کی قربت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے، کہ دونوں کے مابین ایک ایسا دفاعی معاہدہ ہے، کہ اگر کوئی ملک جاپان پر حملہ کرتا ہے، تو وہ حملہ جاپان کے ساتھ امریکہ پر حملہ مانا جائے گا۔ اسی طرح اگر امریکہ پر حملہ ہوتا ہے، تو جاپان پر حملہ مانا جائے گا۔
خیال رہے کہ سنہ 1939 سے دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تھا اور اس جنگ میں امریکہ اور جاپان ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ بالآخر جنگ کے آخری ایام میں امریکہ نے 6 اگست کو جاپان کے ہیروشیما اور 9 اگست کو ناگاساکی پر جوہری حملہ کر دیا تھا، جس کے سبب جاپان کو ایک ایسا درد ملا، جسے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔
جب سے جوہری ہتھیاروں کا وجود ہوا ہے، جاپان واحد ایسا ملک ہے، جس پر پہلی اور آخری بار جوہری حملہ کیا گیا۔ اس حملے کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
جاپان میں ہر برس اس کی برسی منائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود سنہ 2018 میں جاپانی حکومت کے سالانہ کابینہ کے دفتر میں ہونے والے سروے کے مطابق 84 فیصد جاپانی باشندے امریکہ کے قریب محسوس کرتے ہیں۔ وہیں 87 فیصد امریکی باشندے جاپان کے تئیں مثبت رویہ رکھتے ہیں۔
جوہری بم کا شکار ہونے والے ہیروشیما اور ناگاساکی کے بچوں کی صحت پر اس کا بے حد منفی اثر پڑا ہے۔ حملے کے بعد دونوں شہروں میں 70 ہزار نومولود بچوں، جبکہ 5 سو سے 8 سو جنین کی جانچ کی گئی تھی۔
اس دور میں جینیاتی زخموں کے کوئی ثبوت نہیں ملے تھے، لیکن سنہ 2008 میں زندہ بچ جانے والوں اور ان کی نسلوں پر کی جانے والی نئی تحقیقات سے جینیاتی تبدیلیاں اور خرابیوں کا انکشاف ہو رہا ہے۔
تحقیقات سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ نئے طریقے کے جینیاتی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
زندہ بچ جانے والوں کے بچے، جو اب بالغ ہیں، انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ ان کی نسلوں میں بم سے ہونے والا جینیاتی نقصان کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ جسمانی چوٹ اور تابکاری کو چھوڑ کر ایٹم بم کا سب سے نمایاں اثر سراسر دہشت تھی، جس کا سامنا بم زدہ شہروں نے کیا تھا۔
ایسی دہشت جو انسانیت کے لیے بالکل غیر متوقع تھی، اس کا شکار ہونے والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ رہے گی جسے کبھی نکالا نہیں جا سکتا۔
حالانکہ جاپان کے دونوں شہروں نے صفر سے خود کو دوبارہ کھڑا کیا اور ترقی کی بلندیوں پر کچھ ایسا پہنچایا، جیسے یہاں کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
واضح رہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کا المیہ صرف جاپان کا نہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کا ہے۔ لہذا اقوام عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لیے کسی دوسرے نیوکلیائی حملے سے روکنے کی کوشش کریں۔