جنوبی غزہ کے خان یونس شہر میں حماس کے ہزاروں حامیوں نے اسرائیل کے ضم کے منصوبے کے خلاف احتجاج کیا۔
فلسطینی باشندے اسرائیل کی طرف سے ویسٹ بینک، وادئ اردن کی یہودی بستیوں کو منسلک کرنے کی تجویز کو اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
حماس تنظیم کے عہدیدار صلاح البردول نے کہا کہ 'فلسطین کی پوری سرزمین۔ سمندر سے دریا تک، انتہائی قیمتی سرزمین ہے۔ اس میں کوئی راعایت نہیں ہوں گی، یہاں تک کہ دھول کے برابر بھی نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دشمن کے ساتھ ہماری جدوجہد ہمارے وجود کے لیے جد و جہد ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'چاہے ضم ہو یا نہ ہو ، اس دشمن کے ساتھ ہماری جدوجہد شروع سے ختم ہونے تک مسلسل جدوجہد ہے۔ ہم کبھی بھی یہ قبول نہیں کریں گے کہ دشمن فلسطین کی سرزمین پر باقی رہے۔ مزاحمت جاری رہے گی اور اس میں مسلسل اضافہ ہو گا'۔
اسرائیل نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر درجنوں یہودی بستیاں تعمیر کر رکھی ہیں، جن میں اب تقریبا 4 لاکھ اسرائیلی آباد ہیں۔ اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ وہ ویسٹ بینک کا تقریبا 30 فیصد حصہ اسرائیل میں ضم کر کے اسے باضابطہ اسرائیل کا حصہ قرار دے دے۔
خیال رہے کہ رواں برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدی کی ڈیل کے عنوان سے ایک منصوبہ بندی کی ہے، جس میں اسرائیل کو ترجیح دیتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی باشندے اس ڈیل کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ مسلسل اس کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
اس ڈیل کی عملی کارروائی یکم جولائی سے قبل ہی شروع ہوسکتی ہے۔
گذشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے ایک اسرائیلی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل اس زمین کو ضم کرے گا لیکن جو لوگ اسرائیل پر انحصار کریں گے وہ محدود خودمختاری کے ساتھ محصور ہو کر اسرائیل سیکیورٹی کے تحت رہ سکیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کے ضم کے منصوبے نے بین الاقوامی سطح پر بے چینی پیدا کر رکھی ہے۔ یوروپی اور عرب ممالک نے آگاہ کیا ہے کہ ایسا کر کے اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرے گا اور ایسی صورت میں دو ریاستوں کے حل کی باقی ماندہ امیدوں کو خطرہ ہو گا۔