ETV Bharat / international

آیا صوفیہ: اردگان کی قیادت مسلم دنیا کے لیے ایک نیا متبادل - عالمی سیاسی متبادل

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اردگان کے ان اقدامات ہی کی وجہ سے مسلم دنیا میں انھیں ایک 'عالمی سیاسی متبادل' کے طور پر دیکھا جاررہا ہے۔

hagia sophia erdogan's leadership is a new alternative for the muslim world
آیا صوفیہ: اردگان کی قیادت مسلم دنیا کے لیے ایک نیا متبادل
author img

By

Published : Jul 12, 2020, 9:33 AM IST

دنیا بھر میں مسلم معاشرے کی رہنمائی کرنے کی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی دیرینہ خواہش کو اس وقت ایک اہم کامیابی حاصل ہوئی، جب ترکی کی کونسل آف اسٹیٹ نے آیا صوفیہ میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ سنایا۔

آیا صوفیہ میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔

بتادیں کہ ترکی کی اعلی ترین انتظامی عدالت کونسل آف اسٹیٹ نے 10 جولائی 2020 کو آیا صوفیہ کے تاریخی میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ سنایا۔

آیا صوفیا کی 1،400 برس سے بھی زیادہ کی تاریخ رہی ہے۔ استنبول میں آیا صوفیہ کو بازنطینی سلطنت کے تحت مرکزی گرجا گھر، خلافت عثمانیہ کے تحت ایک عظیم الشان مسجد اور جدید ترکی کے تحت ایک تاریخی میوزیم کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے۔ یہاں ہر برس لاکھوں سیاحوں آتے رہتے ہیں۔ جس سے ملک کی آمدنی میں کثیر تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں اس پر ردعمل کا اظہار کیا گیا، لیکن خود ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اسے ملک کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔

رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ 'یہ فیصلہ ملک کی اعلی عدالت کے ذریعے کیا گیا ہے۔ جس پر سب ہی راضی اور متفق ہیں'۔

تاہم سعودی عرب اور کچھ دوسرے ممالک نے اس اقدام کی تنقید کی ہے۔

مشرق وسطی کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ 'اردگان کے اس اقدام سے سعودی بادشاہت کو سخت خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اردگان ایک جمہوری اور منتخب کردہ رہنما ہیں؛ جب کہ سعودی عرب میں ابھی بھی روایتی طور پر بادشاہت برقرار ہے'۔

اس سے قبل اردگان نے گذشتہ برس کے یو این جی اے اجلاس کے دوران اسلام پسندی کے بارے میں اپنے مطالبے کو تیز کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس دوران انہوں نے اسلامی امور پر بات چیت کی اور اسلامی عظمت کی یازیافت کا بھی اظہار کیا تھا۔

یہ واضح کرتے چلیں کہ اردگان، ملشیا کے سابق وزیر اعظم مآثر محمد اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے یو این جی اے کے اجلاس کے فورا بعد ہی عالمی اسلامی نیوز چینل کے آغاز کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوئی یا نہیں یہ الگ بات ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں اس عالمی اسلامی نیوز چینل کے لانچ کا قوی امکان ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اردگان کے ان اقدامات ہی کی وجہ سے مسلم دنیا میں انھیں ایک 'عالمی سیاسی متبادل' کے طور پر دیکھا جاررہا ہے۔

تاہم ان کے اسلام پسندانہ اقدامات کو مغرب نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آیا صوفیہ کے میوزیم کی حیثیت کو تبدیل کرنے سے واشنگٹن اور اس کے قریبی اتحادی روس سے تعلقات سخت ہوسکتے ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اردگان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوگی، کیونکہ ان کا ملک دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہے'۔

دنیا بھر میں مسلم معاشرے کی رہنمائی کرنے کی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی دیرینہ خواہش کو اس وقت ایک اہم کامیابی حاصل ہوئی، جب ترکی کی کونسل آف اسٹیٹ نے آیا صوفیہ میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ سنایا۔

آیا صوفیہ میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔

بتادیں کہ ترکی کی اعلی ترین انتظامی عدالت کونسل آف اسٹیٹ نے 10 جولائی 2020 کو آیا صوفیہ کے تاریخی میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ سنایا۔

آیا صوفیا کی 1،400 برس سے بھی زیادہ کی تاریخ رہی ہے۔ استنبول میں آیا صوفیہ کو بازنطینی سلطنت کے تحت مرکزی گرجا گھر، خلافت عثمانیہ کے تحت ایک عظیم الشان مسجد اور جدید ترکی کے تحت ایک تاریخی میوزیم کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے۔ یہاں ہر برس لاکھوں سیاحوں آتے رہتے ہیں۔ جس سے ملک کی آمدنی میں کثیر تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں اس پر ردعمل کا اظہار کیا گیا، لیکن خود ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اسے ملک کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔

رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ 'یہ فیصلہ ملک کی اعلی عدالت کے ذریعے کیا گیا ہے۔ جس پر سب ہی راضی اور متفق ہیں'۔

تاہم سعودی عرب اور کچھ دوسرے ممالک نے اس اقدام کی تنقید کی ہے۔

مشرق وسطی کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ 'اردگان کے اس اقدام سے سعودی بادشاہت کو سخت خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اردگان ایک جمہوری اور منتخب کردہ رہنما ہیں؛ جب کہ سعودی عرب میں ابھی بھی روایتی طور پر بادشاہت برقرار ہے'۔

اس سے قبل اردگان نے گذشتہ برس کے یو این جی اے اجلاس کے دوران اسلام پسندی کے بارے میں اپنے مطالبے کو تیز کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس دوران انہوں نے اسلامی امور پر بات چیت کی اور اسلامی عظمت کی یازیافت کا بھی اظہار کیا تھا۔

یہ واضح کرتے چلیں کہ اردگان، ملشیا کے سابق وزیر اعظم مآثر محمد اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے یو این جی اے کے اجلاس کے فورا بعد ہی عالمی اسلامی نیوز چینل کے آغاز کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوئی یا نہیں یہ الگ بات ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں اس عالمی اسلامی نیوز چینل کے لانچ کا قوی امکان ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اردگان کے ان اقدامات ہی کی وجہ سے مسلم دنیا میں انھیں ایک 'عالمی سیاسی متبادل' کے طور پر دیکھا جاررہا ہے۔

تاہم ان کے اسلام پسندانہ اقدامات کو مغرب نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آیا صوفیہ کے میوزیم کی حیثیت کو تبدیل کرنے سے واشنگٹن اور اس کے قریبی اتحادی روس سے تعلقات سخت ہوسکتے ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اردگان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوگی، کیونکہ ان کا ملک دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.