افغانستان کے دارالحکومت کابل کے تیمنی علاقے میں مسلح افراد نے ایک کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو خواتین جج ہلاک ہوگئیں۔ اس حملہ میں ڈرائیور بھی زخمی ہوگیا ہے۔
قطر میں طالبان اور افغان سرکاری عہدیداروں کے مابین امن مذاکرات کے دوران یہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تازہ حملہ ہے۔
افغانستان کی سپریم کورٹ کے ترجمان احمد فہیم قیوم نے کہا کہ یہ خواتین جج تھیں جنہوں نے ہائی کورٹ کے لیے کام کیا ہے لیکن انہوں نے نام سے ان کی شناخت نہیں کی۔
ابھی تک کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ باغی گروپ ذمہ دار نہیں ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس حملے میں دو جج کی موت ہوگئی ہے۔ لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ گاڑی میں کتنے افراد سوار تھے۔
حالیہ مہینوں میں افغان حکومت بار بار طالبان کو حملے کے لیے ذمہ دار ٹہراتا رہا ہے۔ وہیں، طالبان اس حملے کے لیے افغان حکومت کو ذمہ دار مانتا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملے طالبان اور افغان سرکاری عہدیداروں کے مابین امن مذاکرات کو روکنے کے لیے کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کملا ہیرس جسٹس سوٹومائیر سے حلف لیں گی
داعش نے حالیہ مہینوں میں دارالحکومت کابل میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جس میں ایسے تعلیمی اداروں پر بھی حملہ کیا گیا ہے جن میں 50 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر طالب علم تھے۔
داعش نے دسمبر میں افغانستان میں امریکی اڈے کو نشانہ بنانے والے راکٹ حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اس ماہ کے شروع میں طالبان اور افغان حکومت نے قطر میں دوبارہ امن مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔
مذاکرات کا عمل آہستہ آہستہ شروع ہوا تھا کیونکہ طالبان امریکی اور نیٹو فوجیوں پر حملہ نہ کرنے کے اپنے وعدے کو برقرار رکھتے ہوئے افغان سرکاری فوج پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔