ETV Bharat / international

Former Afghan President Hamid Karzai: ’طالبان نے افغان دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا بلکہ انہیں مدعو کیا گیا تھا‘ - Hamid Karzai on taliban

سابق افغان صدر حامد کرزئی Former Afghan President Hamid Karzai کا کہنا ہے کہ طالبان نے افغان دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا بلکہ انہیں مدعو کیا گیا تھا۔ حامد کرزئی نے یہ بھی کہا کہ اگر اشرف غنی کابل میں رہتے تو پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا معاہدہ طے پا جاتا۔

Interview of Former Afghan President Hamid Karzai
سابق افغان صدر حامد کرزئی کا انٹرویو
author img

By

Published : Dec 15, 2021, 10:07 PM IST

ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی Former Afghan President Hamid Karzai نے افغان صدر اشرف غنی کی خفیہ طور سے اچانک ملک چھوڑنے کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات پیش کیں ہیں۔ جس میں بتایا کہ انھوں نے آبادی کی حفاظت، ملک اور شہر کو افراتفری سے بچانے کے لیے کس طرح سے طالبان کو شہر میں مدعو کیا۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی کا انٹرویو

حامد کرزئی نے بتایا کہ جب اشرف غنی چلے گئے تو دیگر حکام بھی ملک چھوڑ گئے تھے اور وزیر دفاع بسم اللہ خان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ کابل چھوڑنا چاہتے ہیں تو میں نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

حامد کرزئی کے مطابق جب انہوں نے وزیر دفاع بسم اللہ خان کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ حکام میں سے شہر میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔

انٹرویو کے دوران حامد کرزئی Interview of Hamid Karzai اس بات پر بضد رہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت اس حوالے سے ہونے والے معاہدے کا حصہ تھی۔

ممکنہ معاہدے کی الٹی گنتی 14 اگست کو شروع ہوئی، طالبان کے اقتدار میں آنے سے ایک دن پہلے۔ کرزئی اور عبداللہ نے غنی سے ملاقات کی اور انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اقتدار کی تقسیم کے معاہدے پر بات چیت کے لیے 15 دیگر افراد کی فہرست کے ساتھ اگلے دن دوحہ روانہ ہوں گے۔

طالبان پہلے ہی کابل کے مضافات میں موجود تھے، لیکن کرزئی نے کہا کہ قطر میں قیادت نے وعدہ کیا ہے کہ جب تک معاہدہ نہیں ہو جاتا باغی فورس شہر سے باہر رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی

کرزئی نے کہا کہ 15 اگست کی صبح وہ فہرست تیار کرنے کا انتظار کر رہے تھے، جبکہ دارالحکومت کابل بے چین تھا، اور طالبان کے قبضے کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں جس پر انہوں نے دوحہ فون کیا جہاں سے انہیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔

کرزئی نے کہا کہ دوپہر کے وقت طالبان نے کہا کہ حکومت کو اپنی پوزیشن پر رہنا چاہیے اور کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کا شہر میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

کرزئی نے کہا کہ میں نے اور دوسروں نے مختلف حکام سے بات کی اور ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ امریکی اور سرکاری فوجیں ان جگہوں پر مضبوطی سے جمی ہوئی تھیں اور یہ کہ کابل پر قبضہ نہیں ہوگا۔

تقریباً 2:45 بجے تک، یہ ظاہر ہو گیا کہ اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے ہیں جس کے بعد کرزئی نے وزیر دفاع ، وزیر داخلہ اور کابل پولیس چیف کو فون کیا تو پتا چلا کہ سب جا چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل میں امن کے لئے حامد کرزئی کی گورنر سے ملاقات

دارالحکومت میں کوئی اہلکار موجود نہیں تھا۔ کوئی پولیس چیف، کوئی کور کمانڈر، کوئی اور یونٹ موجود نہیں تھا۔ وہ سب چلے گئے تھے۔

جس کے بعد حامد کرزئی کے بقول اشرف غنی کی ذاتی حفاظتی یونٹ کے نائب سربراہ نے ان کو محل میں آنے اور صدارت سنبھالنے کے لیے بلایا جس پر انھوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ قانونی طور پر انھیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اس کے بجائے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے بچوں کے ساتھ ایک عوامی پیغام جاری کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ افغان عوام کو معلوم ہو کہ ہم سب کابل میں ہی موجود ہیں۔

حامد کرزئی انٹرویو میں اس بات پر بضد تھے کہ اگر غنی کابل میں رہتے تو پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا معاہدہ طے پاتا۔

انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کے لیے ہم سب تیاری کر رہے تھے، جس کی ہم امید کر رہے تھے اور امن کونسل کے چیئرمین اس شام، یا اگلی صبح دوحہ جانا تھا اور معاہدے کو حتمی شکل دینی تھی۔اور مجھے یقین تھا کہ طالبان رہنما بھی اسی مقصد کے لیے دوحہ میں ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

آج موجودہ حالات میں، حامد کرزئی طالبان قیادت سے باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا کو ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے اور اتنا ہی اہم یہ بھی ہے کہ افغانوں کو متحد ہونا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Afghanistan:کابل چھوڑنے کے بعد اشرف غنی کا پہلا ویڈیو، کہا افغانستان واپس آؤنگا

انہوں نے کہا کہ افغانستان پر 40 سال سے زائد عرصے سے جنگ کا غلبہ ہے اور گزشتہ 20 سالوں میں افغانوں کو ہر طرف سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ افغانیوں نے ہر طرف سے جانیں گنوائی ہیں۔ افغان فوج کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، افغان پولیس کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، طالبان کے فوجیوں نے نقصان اٹھایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا "اس کا خاتمہ تب ہی ہو سکتا ہے جب افغان متحد ہوں اور اپنا راستہ خود تلاش کریں۔

سابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ مستقبل کے افغانستان میں لڑکوں، لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم کے عالمی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاست میں، انتظامیہ میں، معاشی سرگرمیوں اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حقوق ملنے چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو بین الاقوامی برادری کے پاس ہمیں تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی، وہ ضرور آئیں گے اور تسلیم کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو طالبان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ افغانستان کو اچھے انتظامات کی ضرورت ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینی پڑتی ہیں جبکہ صحت کی سہولیات کو بھی بہتر بنانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اشرف غنی نے افغانیوں سے معافی مانگی

کرزئی نے بعض اوقات بین الاقوامی برادری کے غلط تاثرات پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان دعوؤں کا حوالہ دیا کہ خواتین اور لڑکیوں کو مرد کے بغیر ان کے گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے یہ سچ نہیں ہے۔ سڑکوں پر لڑکیاں اور خواتین ہیں، کابل کی زمینی صورتحال اس کا ثبوت ہے۔

طالبان کے متعلق سوال پر کرزئی Hamid Karzai On Taliban نے کہا "میں انہیں افغانوں کے طور پر ہی بیان کروں گا، لیکن وہ افغان جو اپنی زندگی میں بہت مشکل دور سے گزرے ہیں، جیسا کہ دوسرے تمام افغان گزشتہ 40 برسوں سے گزرے ہیں۔

کرزئی نے کہا کہ ہم اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزرے ہیں جس میں ہم نے، بین الاقوامی برادری اور ہم سے بات چیت کرنے والوں نے زبردست غلطیاں کی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب کو اس غلطی کا احساس ہو اور ان غلطیوں پر نظر ڈالیں اور مستقبل کے لیے بہتر راہ تلاش کریں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی Former Afghan President Hamid Karzai نے افغان صدر اشرف غنی کی خفیہ طور سے اچانک ملک چھوڑنے کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات پیش کیں ہیں۔ جس میں بتایا کہ انھوں نے آبادی کی حفاظت، ملک اور شہر کو افراتفری سے بچانے کے لیے کس طرح سے طالبان کو شہر میں مدعو کیا۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی کا انٹرویو

حامد کرزئی نے بتایا کہ جب اشرف غنی چلے گئے تو دیگر حکام بھی ملک چھوڑ گئے تھے اور وزیر دفاع بسم اللہ خان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ کابل چھوڑنا چاہتے ہیں تو میں نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

حامد کرزئی کے مطابق جب انہوں نے وزیر دفاع بسم اللہ خان کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ حکام میں سے شہر میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔

انٹرویو کے دوران حامد کرزئی Interview of Hamid Karzai اس بات پر بضد رہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت اس حوالے سے ہونے والے معاہدے کا حصہ تھی۔

ممکنہ معاہدے کی الٹی گنتی 14 اگست کو شروع ہوئی، طالبان کے اقتدار میں آنے سے ایک دن پہلے۔ کرزئی اور عبداللہ نے غنی سے ملاقات کی اور انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اقتدار کی تقسیم کے معاہدے پر بات چیت کے لیے 15 دیگر افراد کی فہرست کے ساتھ اگلے دن دوحہ روانہ ہوں گے۔

طالبان پہلے ہی کابل کے مضافات میں موجود تھے، لیکن کرزئی نے کہا کہ قطر میں قیادت نے وعدہ کیا ہے کہ جب تک معاہدہ نہیں ہو جاتا باغی فورس شہر سے باہر رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی

کرزئی نے کہا کہ 15 اگست کی صبح وہ فہرست تیار کرنے کا انتظار کر رہے تھے، جبکہ دارالحکومت کابل بے چین تھا، اور طالبان کے قبضے کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں جس پر انہوں نے دوحہ فون کیا جہاں سے انہیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔

کرزئی نے کہا کہ دوپہر کے وقت طالبان نے کہا کہ حکومت کو اپنی پوزیشن پر رہنا چاہیے اور کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کا شہر میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

کرزئی نے کہا کہ میں نے اور دوسروں نے مختلف حکام سے بات کی اور ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ امریکی اور سرکاری فوجیں ان جگہوں پر مضبوطی سے جمی ہوئی تھیں اور یہ کہ کابل پر قبضہ نہیں ہوگا۔

تقریباً 2:45 بجے تک، یہ ظاہر ہو گیا کہ اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے ہیں جس کے بعد کرزئی نے وزیر دفاع ، وزیر داخلہ اور کابل پولیس چیف کو فون کیا تو پتا چلا کہ سب جا چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل میں امن کے لئے حامد کرزئی کی گورنر سے ملاقات

دارالحکومت میں کوئی اہلکار موجود نہیں تھا۔ کوئی پولیس چیف، کوئی کور کمانڈر، کوئی اور یونٹ موجود نہیں تھا۔ وہ سب چلے گئے تھے۔

جس کے بعد حامد کرزئی کے بقول اشرف غنی کی ذاتی حفاظتی یونٹ کے نائب سربراہ نے ان کو محل میں آنے اور صدارت سنبھالنے کے لیے بلایا جس پر انھوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ قانونی طور پر انھیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اس کے بجائے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے بچوں کے ساتھ ایک عوامی پیغام جاری کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ افغان عوام کو معلوم ہو کہ ہم سب کابل میں ہی موجود ہیں۔

حامد کرزئی انٹرویو میں اس بات پر بضد تھے کہ اگر غنی کابل میں رہتے تو پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا معاہدہ طے پاتا۔

انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کے لیے ہم سب تیاری کر رہے تھے، جس کی ہم امید کر رہے تھے اور امن کونسل کے چیئرمین اس شام، یا اگلی صبح دوحہ جانا تھا اور معاہدے کو حتمی شکل دینی تھی۔اور مجھے یقین تھا کہ طالبان رہنما بھی اسی مقصد کے لیے دوحہ میں ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

آج موجودہ حالات میں، حامد کرزئی طالبان قیادت سے باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا کو ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے اور اتنا ہی اہم یہ بھی ہے کہ افغانوں کو متحد ہونا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Afghanistan:کابل چھوڑنے کے بعد اشرف غنی کا پہلا ویڈیو، کہا افغانستان واپس آؤنگا

انہوں نے کہا کہ افغانستان پر 40 سال سے زائد عرصے سے جنگ کا غلبہ ہے اور گزشتہ 20 سالوں میں افغانوں کو ہر طرف سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ افغانیوں نے ہر طرف سے جانیں گنوائی ہیں۔ افغان فوج کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، افغان پولیس کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، طالبان کے فوجیوں نے نقصان اٹھایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا "اس کا خاتمہ تب ہی ہو سکتا ہے جب افغان متحد ہوں اور اپنا راستہ خود تلاش کریں۔

سابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ مستقبل کے افغانستان میں لڑکوں، لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم کے عالمی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاست میں، انتظامیہ میں، معاشی سرگرمیوں اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حقوق ملنے چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو بین الاقوامی برادری کے پاس ہمیں تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی، وہ ضرور آئیں گے اور تسلیم کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو طالبان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ افغانستان کو اچھے انتظامات کی ضرورت ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینی پڑتی ہیں جبکہ صحت کی سہولیات کو بھی بہتر بنانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اشرف غنی نے افغانیوں سے معافی مانگی

کرزئی نے بعض اوقات بین الاقوامی برادری کے غلط تاثرات پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان دعوؤں کا حوالہ دیا کہ خواتین اور لڑکیوں کو مرد کے بغیر ان کے گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے یہ سچ نہیں ہے۔ سڑکوں پر لڑکیاں اور خواتین ہیں، کابل کی زمینی صورتحال اس کا ثبوت ہے۔

طالبان کے متعلق سوال پر کرزئی Hamid Karzai On Taliban نے کہا "میں انہیں افغانوں کے طور پر ہی بیان کروں گا، لیکن وہ افغان جو اپنی زندگی میں بہت مشکل دور سے گزرے ہیں، جیسا کہ دوسرے تمام افغان گزشتہ 40 برسوں سے گزرے ہیں۔

کرزئی نے کہا کہ ہم اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزرے ہیں جس میں ہم نے، بین الاقوامی برادری اور ہم سے بات چیت کرنے والوں نے زبردست غلطیاں کی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب کو اس غلطی کا احساس ہو اور ان غلطیوں پر نظر ڈالیں اور مستقبل کے لیے بہتر راہ تلاش کریں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.