او آئی سی دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاس کے کچھ نہیں کیا۔ History of Organisation of Islamic Cooperation 21 اگست 1969 کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969 کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ 28 جون 2011 کو قزاقستان میں 38ویں وزرائے خارجہ اجلاس کے دوران تنظیم نے اپنا پرانا نام تنظیم موتمر اسلامی کو تبدیل کرکے نیا نام تنظیم تعاون اسلامی رکھا۔ اس وقت تنظیم نے اپنا لوگو بھی تبدیل کر لیا تھا۔ او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔
او آئی سی کی تاریخ:
21 اگست 1969کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ میں موجود 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی تھی جس کی زد میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی۔ اس واقعہ کے بعد عالم اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اس وقت کے فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی نے احتجاج کرتے ہوئے عالم اسلام کو اس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔ مفتی اعظم کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم ممالک کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔
او آئی سی کی بنیاد کب رکھی گئی؟
25 ستمبر 1969کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزرائے خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ ہوا۔ سنہ 1972 میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہوگا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوگا۔ Organisation of Islamic Cooperation
او آئی سی کا مقصد کیا ہے:
او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا کہ اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپسی یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔
او آئی سی کے سربراہی اجلاس کی تاریخ:
او آئی سی میں پالیسی ترتیب دینے میں سب سے اہم کام رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہے جو ہر تین سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن(او آئی سی) کے سربراہی اجلاس کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں بھی سعودی سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے۔ پاکستان میں ہونے والی کانفرنس میں پہلی بار فلسطین کو علیحدہ مملکت کا درجہ دیا گیا بعد میں اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔
سنہ 1974میں لاہور میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں امین الحسینی، فلسطین کے یاسر عرفات، شاہ فیصل، یوگانڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان، ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے رہنما شریک تھے۔ او آئی سی کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980میں پاکستان کے صدر محمد ضیا الحق نے مسلمانوں کے متفقہ رہنما کے طور پر اقوام متحدہ سے خطاب کیا تھا جبکہ ان کے خطاب سے قبل قرآن پاک کی ریکارڈنگ بھی چلائی گئی اور پھر زوال کا یہ عالم ہوا کہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی ملی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ فورم غیر موثر ہوتا چلا گیا۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں رہے۔ کویت پر صدام حسین کے حملے کا آبرو مندانہ حل نہ نکل سکا۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مر گئے لیکن تاریخ میں آج بھی ان کا نام محفوظ ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس:
سال میں ایک مرتبہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں اقتدار پر آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورتحال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا اور اب تین ماہ کے قلیل عرصے میں یہ اجلاس دوبارہ پاکستان میں منعقد ہوا۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کی کانفرنس اہمیت کی حامل:
آج سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں شروع ہونے والی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس پاکستان کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ سنہ 1974کی کانفرنس نے ذوالفقار علی بھٹو کو عالمی رہنما بنا دیا تھا۔