واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل میانمار کی فوج نے نیوز رومز پر چھاپے مارے تھے اور میڈیا لائسنس منسوخ کئے تھے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یکم فروری کو ملک میں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد سے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور ہزاروں افراد جمہوریت کی واپسی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
گذشتہ ماہ ینگون میں بغاوت مخالف مظاہرے کا احاطہ کرنے والے پانچ صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ’’خوف پیدا کرنے، جھوٹی خبریں پھیلانے یا براہ راست یا بالواسطہ کسی سرکاری ملازم کو مشتعل کرنے‘‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔
میانمار کی فوجی جنتا نے بغاوت کے بعد قانون میں ترمیم کی تھی جس میں زیادہ سے زیادہ سزا دو سال سے بڑھا کر تین سال تک کردی گئی تھی۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران پانچوں صحافی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے موجود تھے جن پر باضابطہ طور پر الزام لگایا گیا جبکہ امریکی سفارتخانے کے نمائندے عدالت کے باہر انتظار کرتے رہے۔
اس میں ایک صحافی تھین ژاؤ اے پی کے فوٹوگرافر تھے۔
یو این آئی