میڈیا خدمات مہیا کرانے والی امریکی ایجنسی 'نیٹ فلکس' پر پہلی بار عربی زبان میں 'جن' نام کی سیریز نے اردن میں تنازع پیدا کر دیا ہے۔
اردن میں شوٹ کی گئی سیریز 'جن' میں نو عمر لڑکے اور لڑکیاں رات میں شراب پیتے ہیں، سیگریٹ نوشی کرتے ہیں، خوشی میں الاو جلاتے ہیں، اور فحش گوئی کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے نوجوانوں میں بے حیائی بڑھے گی۔ اور اس فحش زبان کو عام زبان سمجھ کر نوجوان قبول کرنے لگیں گے۔
جب پوی دنیا میں 'جن' ریلیز کی گئی تو اردن کے باشندے حیران رہ گئے۔ اردون کے وزراء نے اس فلم کو سینسر کرنے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ اردن کے مفتی اعظم نے اس کی تنقید کرتے ہوئے اسے اخلاقی طور پر ہراساں کرنے والی فلم قرار دیا۔
اردن کے قانون ساز افراد نے اسے ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے سائبر کرائم اکائی سے مطالبہ کیا ہے کہ اس پر فوری کارروائی کی جائے اور اس فلم کو 'نیٹ فلکس' سے ہٹایا جائے۔
اردن آرٹسٹ ایسوسیشن کے صدر، حسین الخطیب کا کہنا ہے کہ اردن آرٹسٹ ایشوسیشن تمام عالمی کمپنیز کا اردن میں خیر مقدم کرتی ہے۔ تاہم اس فلم کے حوالے سے جو اردن کے عوام کے جذبات کو ٹھیس لگی ہے اس کا ازالہ فلم کو سینسر کر کے کیا جا سکتا ہے۔
اس فلم نے اردن کے لوگوں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ شراب پینا، سیگریٹ نوشی، بھنگ کھانا اور شادی سے قبل بوسہ لینا حرام ہے۔
42 سالہ ختام القسوانی کا کہنا ہے کہ 'میں اپنے بچوں کو اسے دیکھنے کی ہر گز اجازت نہیں دوں گی۔ یہ ہمارے اخلاقیات اور مذہب کے مخالف ہے'۔
فلم کی ہدایت کاری لبنانی فلم ساز جین بو چایا نے کی ہے، جبکہ فلم کو لکھنے کا کام اردن کے آسکر انعام یافتہ بسیل غندور نے کیا ہے۔ فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والے سبھی اداکار اردن کے ہی باشندے ہیں، اور یہ فلم اردن میں ہی شوٹ کی گئی ہے۔