اس ہفتے کی عظیم اسمبلی ’’لویا جرگا‘‘ میں تقریباً 3,200مذہبی، قبائلی اور سیاسی نمائندے طالبان سے مذاکراتی مفاہمت کی راہ کو ہموار کرنے کے لئے سخت حفاظتی حصار میں جمع ہوئے۔
جِرگا سے وابستہ ایک کمیٹی کے سربراہ محمد قریشی کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان میں ہر روز بے گناہ لوگ بے سبب اور بے مقصد مارے جاتے ہیں، غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان ناگزیر ہے۔‘‘
جِرگا کی یہ میٹنگ ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب امریکی ایلچی ’’زلمے خلیل زاد‘‘ اور طالبان کے مابین دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔
ان مذاکرات کا مقصد ایسے امور پر غور و فکر ہے جس میں افغانستان کی سرزمین سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کے بدلے اس بات کی ضمانت حاصل کی جائے کہ انخلاء کے بعد دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں سرگرم نہ رہیں۔
افغانستانی سماج کے بعض طبقوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر امریکہ طالبان کے ساتھ کوئی مفاہمت اختیار کرتا ہے تو ’’شدت پسند اسلامی تنظیم‘‘ حکومت پر قابض ہوجائیں گے جس سے خواتین اور صحافیوں کے حقوق پامال ہو جائیں گے۔
جِرگا میں جمع ہوئی سینکڑوں خواتین نے طالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے تئیں ان خدشات کا اظہار کیا۔
کمیٹی کے ایک ممبر فیض اللہ جلال کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ایسے امن کی ضرورت نہیں جہاں خواتین کے حقوق صلب کئے جائیں، آزادی رائے پر قدغن ہو اور انتخابات منعقد نہ کئے جائیں۔‘‘
جِرگا کو حزب اختلاف نے صدر اشرف غنی کی ایک ’’تشہیری مہم‘‘ سے تعبیر کیا، جس سے جِرگا کے ’’متنازعہ‘‘ ہونے کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔
جِرگا سے دور رہنے والے دیگر رہنمائوں میں (ایک زمانے میں شمالی اتحاد سے وابستہ) عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ رواں برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں دونوں صدارتی امیدوار ہیں۔
دریں اثناء، افغانستان میں جنگ جاری ہے، جہاں ہر سال ہزاروں عسکریت پسند اور عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔
اٹھارہ سال سے جاری افغان جنگ کو امریکہ سیاسی اختتام تک پہچانے کی کوشش میں ہے جبکہ امریکی افواج طالبان کو ختم کرنے کے لئے افغان فوجیوں کو برابر ٹریننگ دینے میں مشغول ہیں۔