ETV Bharat / international

کابل ’’امن مذاکرات‘‘ کتنی اہمیت کا حامل

افغانستان کو جنگ سے باہر نکالنے اور مستقل امن کے قیام کے لئے کابل میں جاری امن کانفرنس اختتام پذیر ہونے کو ہے، جس میں اعلیٰ سیاست دانوں کی جانب سے کسی بڑی پیش رفت کا اعلان متوقع ہے۔

علامتی تصویر
author img

By

Published : May 3, 2019, 3:41 PM IST

اس ہفتے کی عظیم اسمبلی ’’لویا جرگا‘‘ میں تقریباً 3,200مذہبی، قبائلی اور سیاسی نمائندے طالبان سے مذاکراتی مفاہمت کی راہ کو ہموار کرنے کے لئے سخت حفاظتی حصار میں جمع ہوئے۔

جِرگا سے وابستہ ایک کمیٹی کے سربراہ محمد قریشی کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان میں ہر روز بے گناہ لوگ بے سبب اور بے مقصد مارے جاتے ہیں، غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان ناگزیر ہے۔‘‘

جِرگا کی یہ میٹنگ ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب امریکی ایلچی ’’زلمے خلیل زاد‘‘ اور طالبان کے مابین دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔

ان مذاکرات کا مقصد ایسے امور پر غور و فکر ہے جس میں افغانستان کی سرزمین سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کے بدلے اس بات کی ضمانت حاصل کی جائے کہ انخلاء کے بعد دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں سرگرم نہ رہیں۔

افغانستانی سماج کے بعض طبقوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر امریکہ طالبان کے ساتھ کوئی مفاہمت اختیار کرتا ہے تو ’’شدت پسند اسلامی تنظیم‘‘ حکومت پر قابض ہوجائیں گے جس سے خواتین اور صحافیوں کے حقوق پامال ہو جائیں گے۔

جِرگا میں جمع ہوئی سینکڑوں خواتین نے طالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے تئیں ان خدشات کا اظہار کیا۔

کمیٹی کے ایک ممبر فیض اللہ جلال کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ایسے امن کی ضرورت نہیں جہاں خواتین کے حقوق صلب کئے جائیں، آزادی رائے پر قدغن ہو اور انتخابات منعقد نہ کئے جائیں۔‘‘

جِرگا کو حزب اختلاف نے صدر اشرف غنی کی ایک ’’تشہیری مہم‘‘ سے تعبیر کیا، جس سے جِرگا کے ’’متنازعہ‘‘ ہونے کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔

جِرگا سے دور رہنے والے دیگر رہنمائوں میں (ایک زمانے میں شمالی اتحاد سے وابستہ) عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ رواں برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں دونوں صدارتی امیدوار ہیں۔

دریں اثناء، افغانستان میں جنگ جاری ہے، جہاں ہر سال ہزاروں عسکریت پسند اور عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔

اٹھارہ سال سے جاری افغان جنگ کو امریکہ سیاسی اختتام تک پہچانے کی کوشش میں ہے جبکہ امریکی افواج طالبان کو ختم کرنے کے لئے افغان فوجیوں کو برابر ٹریننگ دینے میں مشغول ہیں۔

اس ہفتے کی عظیم اسمبلی ’’لویا جرگا‘‘ میں تقریباً 3,200مذہبی، قبائلی اور سیاسی نمائندے طالبان سے مذاکراتی مفاہمت کی راہ کو ہموار کرنے کے لئے سخت حفاظتی حصار میں جمع ہوئے۔

جِرگا سے وابستہ ایک کمیٹی کے سربراہ محمد قریشی کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان میں ہر روز بے گناہ لوگ بے سبب اور بے مقصد مارے جاتے ہیں، غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان ناگزیر ہے۔‘‘

جِرگا کی یہ میٹنگ ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب امریکی ایلچی ’’زلمے خلیل زاد‘‘ اور طالبان کے مابین دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔

ان مذاکرات کا مقصد ایسے امور پر غور و فکر ہے جس میں افغانستان کی سرزمین سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کے بدلے اس بات کی ضمانت حاصل کی جائے کہ انخلاء کے بعد دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں سرگرم نہ رہیں۔

افغانستانی سماج کے بعض طبقوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر امریکہ طالبان کے ساتھ کوئی مفاہمت اختیار کرتا ہے تو ’’شدت پسند اسلامی تنظیم‘‘ حکومت پر قابض ہوجائیں گے جس سے خواتین اور صحافیوں کے حقوق پامال ہو جائیں گے۔

جِرگا میں جمع ہوئی سینکڑوں خواتین نے طالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے تئیں ان خدشات کا اظہار کیا۔

کمیٹی کے ایک ممبر فیض اللہ جلال کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ایسے امن کی ضرورت نہیں جہاں خواتین کے حقوق صلب کئے جائیں، آزادی رائے پر قدغن ہو اور انتخابات منعقد نہ کئے جائیں۔‘‘

جِرگا کو حزب اختلاف نے صدر اشرف غنی کی ایک ’’تشہیری مہم‘‘ سے تعبیر کیا، جس سے جِرگا کے ’’متنازعہ‘‘ ہونے کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔

جِرگا سے دور رہنے والے دیگر رہنمائوں میں (ایک زمانے میں شمالی اتحاد سے وابستہ) عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ رواں برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں دونوں صدارتی امیدوار ہیں۔

دریں اثناء، افغانستان میں جنگ جاری ہے، جہاں ہر سال ہزاروں عسکریت پسند اور عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔

اٹھارہ سال سے جاری افغان جنگ کو امریکہ سیاسی اختتام تک پہچانے کی کوشش میں ہے جبکہ امریکی افواج طالبان کو ختم کرنے کے لئے افغان فوجیوں کو برابر ٹریننگ دینے میں مشغول ہیں۔

ZCZC
PRI ESPL INT
.KABUL FES20
AFGHAN-PEACE-SUMMIT
Massive Afghanistan peace summit ends in Kabul
         Kabul, May 3 (AFP) A huge peace meeting aimed at finding an exit from Afghanistan's war is due to finish Friday in Kabul, with leading politicians expected to announce visions for a much-needed breakthrough.
         This week's "loya jirga", or grand assembly, saw about 3,200 religious and tribal leaders, politicians and representatives gather under tight security to try to find common ground and discuss possible conditions for a peace deal with the Taliban.
         On Thursday, several officials said a vital first step is an immediate reduction in violence, which has continued apace across Afghanistan even with various peace summits taking place.
         "Every day, Afghans are being killed without any reason. An unconditional ceasefire must be announced," said Mohammad Qureshi, head of one of the jirga's many committees.
         The jirga comes as the Taliban, who were not at the talks, are this week separately meeting in Doha with US peace envoy Zalmay Khalilzad.
         Those talks focus on a potential deal that would see the withdrawal of foreign forces from Afghanistan in return for the Taliban guaranteeing terrorist groups could no longer operate in the country.
         Huge swathes of Afghan society worry that if the US does make a deal with the Taliban, the militant Islamists would try to seize power and undo advances in women's rights, media freedoms, and legal protections.
         Such concerns were laid bare at the jirga, where hundreds of women were in attendance outlining their "red lines" for any negotiations with the Taliban.
         "We don't want such a peace that women's rights are not respected, freedom of expression are not ensured, elections are not held," committee member Faizullah Jalal told the summit.
         The jirga proved controversial, with opposition figures slamming it as an election campaign event for President Ashraf Ghani, who is due to deliver closing remarks.
         Among those boycotting were Chief Executive Abdullah Abdullah and Gulbuddin Hekmatyar, a notorious former warlord. Both men are running for president in elections slated for September.
         Meanwhile, Afghanistan's war rages on, with thousands of civilians and fighters being killed each year.
         US forces continue to train Afghan partners on the ground and strike the Taliban from the air, in a bid to push the war -- now in its 18th year -- to a political settlement. (AFP)
RS
05031210
NNNN

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.