عراق کے دارالحکومت بغداد کے جنوب میں واقع 'دی کوخیح' نامی چرچ کی جانب سینکڑوں کی تعداد میں عیسائی طبقے کے افراد کوچ کر رہے ہیں۔
وہاں صلیب تھامے ایک شخص کی قیادت میں درجنوں مذہبی افراد جلوس کی شکل میں تباہ شدہ انتہائی قدیم اور تاریخی کلیسا کی جانب زیارت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں۔
عیسائی مذہبی رہنما مارٹن داود کا کہنا ہے کہ اس کلیسا کی تاریخ تقریبا 2 ہزار برس قدیم ہے۔ گذشتہ برسوں میں عراق میں سیکوریٹی بحران کے بیش نظر بیشتر عراقی عیسائی یہاں سے ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال عراق میں عیسائی طبقے کے افراد اقلیت میں ہو گئے ہیں۔
گذشتہ 20 برسوں میں عیسائی طبقے کے لوگ حفاظت کے پیش نظر اس کلیسا کی باقیات کو دیکھنے سے قاصر تھے۔
بعد ازاں شدت پسند تنظیم 'داعش' کی حملے کی وجہ سے بھی کلیسا کی طرف لوگوں کی آمد و رفت مسدود تھی۔ لیکن گذشتہ برس عوام کو اس کلیسا کی زیارت کی دوبارہ اجازت دے دی گئی۔
کلیسا کی صورت حال اس قدر نا گفتہ بہ ہے کہ اس کی تعمیر نو کے لیے حکومت کی جانب سے معاشی تعان کی ضرورت ہے۔
اَزبیل اِشو نامی عیسائی خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہی رہیں، کیوں کہ ان کے آباء و اجداد کی جَڑیں یہاں سے وابستہ ہیں۔ اس لیے انہیں امید ہے کہ ان کے ساتھ یہاں تفریق کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔
عراقی عیسائیوں کا خیال ہے کہ وہ اس ملک کے سب سے قدیم شہریوں میں سے ایک ہیں۔
سنہ 2003 میں عراق اور امریکہ کے درمیان جنگ کے آغاز سے قبل یہاں تقریبا 10 لاکھ عیسائی آباد تھے، لیکن فی الحال تقریبا ڈھائی لاکھ عیسائی عراق میں باقی بچے ہیں۔