آرمینا اور آذربائیجان کے مابین جنگ کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے آج سے تقریبا 30 برس قبل کی تاریخ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
آج سے تقریبا 30 برس قبل آرمینیا اور آذربائیجان اپنی آزادی سے پہلے یو ایس ایس آر کا حصہ تھے، لیکن جب سنہ 1991 میں یو ایس ایس آر کا زور ٹوٹا تب 15 ممالک آزاد ہوئے ان 15 ممالک میں سے یہ دونوں آرمینیا اور آذربائیجان بھی تھے۔ آزادی کے بعد روس نے آذربائیجان کو ناگورنو قرہباخ کا علاقہ دے دیا تھا، جبکہ یہاں عیسائی مذہب کے پیروکار اکثریت میں اور ترک مسلمان اقلیت میں تھے۔
خیال رہے کہ آذربائیجان میں مسلم اکثریت ہے جبکہ آرمینیا میں عیسائی مذہب کے ماننے والے اکثریت میں ہیں۔ ایسی صورت میں آرمینیا نے متنازع خطے 'ناگورنو قرہباخ' عیسائی اکثریت والی آبادی کے سبب اس خطے کو اپنے ملک میں ضم کرنے کی کوشش شروع کر دی، جس کے نتیجے میں سنہ 1992 سے 1994 تک آذربائیجان اور آرمینا کے درمیان اس خطے کے قبضے سے متعلق جنگ ہوئی، لیکن مسئلہ حل نہیں ہو سکا اور سنہ 1994 میں روس نے ثالث کا کردار ادا کر کے جنگ بندی کرا دی تھی۔
بعد ازاں ناگورنو قرہباخ میں ریفرنڈم کرایا گیا کہ وہاں کے باشندے آرمینیا کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا آذربائیجان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں؟ اس ریفرنڈم میں ناگورنو قرہباخ کے باشندوں نے دونوں ممالک سے قطع نظر آزاد رہنے کے حق میں ووٹ کیا، لیکن آذربائیجان نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا، کیوں کہ آذربائیجان کے لیے یہ علاقہ اسٹریٹجک لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔
اس طرح سنہ 1994 سے سنہ 2018 تک بات چیت کی کوششیں ہوئیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ بالآخر سنہ 2018 سے ہی تنازع کی شروعات ہو گئی اور مستقل طور پر سرحدی فائرنگ اور بمباری کا سلسلہ جاری رہا اور گذشتہ 27 ستمبر سنہ 2020 سے یہ حالات کافی زیادہ خراب ہوگئے ہیں، جن حالات نے دنیا بھر کے لیے فکر کی لکیریں کھینچ دی ہیں۔
گذشتہ دنوں جنگ بندی بھی ہوئی تھی، لیکن عملی طور پر جنگ بندی کی کوئی تصویر نظر نہیں آ رہی ہے۔
مختصر یہ کہ اس معاملے کو سمجھنے کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناگورنو قرہباخ کی صورت حال بھارت کے زیر انتظام علاقہ کشمیر جیسی ہے، جو بھارت کے نقشے میں واقع ہے اور پاکستان اسے مسلم اکثریتی آبادی کے لحاظ سے اپنے ساتھ ضم کرنا چاہتا ہے، جبکہ بھارت کو یہ بات کسی بھی صورت منظور نہیں۔