چینی صدر شی جن پنگ نے 18 مارچ کی رات امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ویڈیو لنک پر دو گھنٹے بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں نے چین امریکہ تعلقات اور یوکرین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
بائیڈن نے امریکہ کے موقف کا تعارف کرایا اور کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ رابطہ قائم کرکے حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔
شی جن پنگ نے کہا کہ چین یوکرین کی حالیہ صورتحال نہیں دیکھنا چاہتا۔ چین ہمیشہ امن کا حامی ہے اور جنگ کی مخالفت کرتا ہے۔ چین نے یوکرین میں انسانی صورتحال سے متعلق چھ اقدامات متعارف کرائے ہیں۔
چین یوکرین اور اس سے متاثرہ دیگر ممالک کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور مختلف فریقوں کو روس یوکرین مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیے۔ امریکہ اور نیٹو کو بھی روس کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں، تاکہ یوکرین کے بحران کے پس پردہ مسئلے کو حل کیا جا سکے اور روس یوکرین کے سکیورٹی خدشات کو دور کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:
Russia Ukraine War: اگر چین نے روس کی مدد کی تو نتائج بھگتنے ہوں گے، امریکہ
بات چیت میں جو بائیڈن نے کہا کہ 50 سال پہلے امریکہ اور چین نے ایک اہم انتخاب کیا اور شنگھائی اعلامیہ جاری کیا۔ 50 سال بعد امریکہ اور چین کے تعلقات ایک بار پھر اہم دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دو طرفہ تعلقات کی ترقی 21ویں صدی کے عالمی ڈھانچے کو نئی شکل دے گی۔
بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکا چین کے ساتھ نئی سرد جنگ شروع نہیں کرنا چاہتا، چین کے سیاسی نظام کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا، تعلقات کو مضبوط بنا کر چین کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا، تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرے گا اور چین کے ساتھ تصادم آرائی نہیں کرے گا۔
انھوں مزید کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ اچھے مذاکرات کا خواہاں، ایک چین کے اصول پر قائم رہ کر چین کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرے گا۔ اور امریکہ مسابقت اور اختلافات کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرکے دوطرفہ تعلقات کی مستحکم ترقی کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھ کر دو طرفہ تعلقات کی ترقی کی سمت کا تعین کریں گے۔
وہیں شی جن پنگ نے کہا کہ گزشتہ نومبر میں ہمارے درمیان ویڈیو بات چیت کے بعد بین الاقوامی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Beijing Supports Peace Talks Between Russia, Ukraine:چین یوکرین میں جنگ بندی کا خواہاں
انھوں نے کہا کہ امن اور ترقی کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ دنیا بے چین ہے اور سکون نہیں ہے۔ ہم یوکرین کا بحران نہیں دیکھنا چاہتے۔ متعلقہ حقائق نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ملکوں کے درمیان تعلقات کو جنگ کی طرف نہیں لے جانا چاہیے۔ مقابلہ اور لڑائی کسی کے مفادات میں نہیں ہے، امن اور سلامتی بین الاقوامی برادری کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک اور دنیا کے پہلے دو بڑے اقتصادی اداروں کے طور پر، چین اور امریکہ کو دوطرفہ تعلقات کی ترقی کو صحیح راستے پر گامزن کرنا چاہیے اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنا چاہیے، تاکہ عالمی امن کے لیے کوشش کی جا سکے۔
شی جن پنگ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ حالیہ چین امریکہ تعلقات سابق امریکی حکومت کی پیدا کردہ پریشان کن صورتحال سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ خاص طور پر بہت سے امریکیوں نے تائیوان کی آزاد طاقتوں کو غلط اشارے دیے جو کہ بہت خطرناک ہے۔ تائیوان کا سوال دو طرفہ تعلقات پر بڑا اثر ڈالے گا۔
انھوں کہا کہ امید ہے کہ اب امریکی فریق مزید توجہ دے گا۔ شی جن پنگ نے زور دے کر کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان ہمیشہ اختلافات ہوتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دونوں فریقین کو اختلافات کو اچھی طرح کنٹرول کرنا چاہیے۔ چین اور امریکہ کے مستحکم تعلقات دونوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔