ETV Bharat / international

مولانا فضل الرحمن اور آزادی مارچ

author img

By

Published : Nov 11, 2019, 11:36 PM IST

پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جاری آزادی مارچ پر تجزیہ کار سی ادے بھاسکر کی بے لاگ تحریر۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان

پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ، مولانا فضل الرحمن ، جو ایک انتہائی مستحکم شعبے کے سب سے زیادہ عملی سیاسی زندہ رہنما کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں، انہوں نے 27 اکتوبر کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف 'آزادی مارچ' کی قیادت کی۔

ایک اندازے کے مطابق اسلام آباد میں اس مارچ میں 2 لاکھ سے زیادہ پیروکار جمع ہوگئے تھے۔

جے یو آئی کے رہنما کا الزام ہے کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔
ہفتہ (9 نومبر) کو آزادی مارچ کو دو ہفتے مکمل ہوگئے ۔ عمران خان کی حکومت حزب اختلاف رہبر کمیٹی کی گفتگو کرنے والی ٹیم کے ساتھ غیر یقینی مذاکرات میں داخل ہوئی تھی۔

شدید موسم، شدید بارش اور سرد راتوں کی وجہ سے مارچ میں کچھ مقامی شرکاء کو مارچ چھوڑ کر گھر کا رخ کرنا پڑ رہا ہے ۔

پاکستانی تجزیہ کار نے فصل الرحمن کی طرف سے درپیش چلینج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کے جو مقاصد تھے وہ بغیر حاصل ہوئے ہی ختم ہوگئے ہیں۔

اس وقت پاکستان کی اہم سیاسی جماعتیں جن میں پی ایم ایل۔این(پاکستان مسلم لیگ۔نواز) اور پی پی پی(پاکستان پیپلز پارٹی) پر مختلف قسم کے بدنظمی کے الزامات عائد کیے ہیں، پاکستان کے سابق وزیر ا اعظم نواز شریف اور سابق صدر عاصف زرداری پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔مزید یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کے شدید علیل ہونے کی وجہ سے انہیں طبی علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا جاسکتا ہے۔یہ بات بھی عیاں کی جارہی ہے کہ پی ایم ایل۔این کے اندر نواز شریف کی بیٹی اور بھائی کے درمیان قیادت کو لے کر سیاسی رسا کشی ہے۔وہیں اندازہ یہ بھی لگایا جارہا ہے کہ صحیح وقت ملتے ہی پی ایم ایل۔این کی قیادت کو نواز شریف کی بیٹی مریم کے سپرد کردیا جائے گا۔

وہیں پی پی پی کے سیاسی حالت بھی غیر مستحکم ہے۔پی پی پی کے سینیئر رہنماء عاصف علی زرداری جن پر بدعنوانی سے متعلق الزامات عائد ہیں، ان کی صحت بھی تشویشناک بتائی جارہی ہے۔وہیں ان کے بیٹے بلاول بھٹو جن کی سیاسی پرورش ان کی والدہ بینظیر بھٹو اور دادا ذوالفقار علی بھٹو نے کی ہے وہ آہستہ آہستہ پاکستان کے ہنگامہ خیز سیاست میں پی پی پی کی ساکھ اور رسائی کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس مارچ کے تناظر میں فصل الرحمن کو پاکستان کے موجودہ سیاسی صورت حال میں اپنی حیثیت کو قائم کرنے کا نہ صرف موقع حاصل ہوا ہے بلکہ وہ اپنے حریف عمران خان کو سیاسی میدان میں شکست دینے کی تیاری میں بھی مصروف نظر آرہے ہیں یہ دھرنا اسی جانب ایک قدم ہے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمان محض 27 برس کی عمر میں جے یو آئی کے امیر مقرر کیے گئے اور خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرا اسماعیل خان ان کا گڑھ رہا ہے جہاں سے ان کے والد قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔رحمان پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت اثر ورسوخ رکھتے ہے۔

وہیں اس کے برعکس عمران خان نے سنہ 1996 میں اپنی جماعت پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کی بنیاد رکھتے ہی سیاست کی طرف اپنا پہلا قدم رکھا۔محض ایک مختصر عرصے میں عمران خیبر پختونخوا میں معتبر سیاسی وجود کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔برس 2018 میں ہوئے پاکستان کے عام انتخابات میں فضل الرحمن اور ان کی پارٹی کو پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پختوانخواہ کے شیر کو سیاست میں نیا قدم رکھنے والے عمران خان سے شکست حاصل ہوئی تھی۔

جولائی 2018 سے جب عمران خان نے قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے اور بعد ازاں روال پنڈی سے ملی مدد اور توثیق سے وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں تب سے فضل الرحمن حکومت کی تنقید کرتے آرہے ہیں اور یہ الزام بھی عائد کیا کہ عمران خان یہودی لابی، مغرب اور ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔

اگر عمران خان کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں تو سنہ 2016 میں عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بالکل اسی طرح کی تحریک کی قیادت کی تھی ۔رحمان نے جے یو آئی کی قیادت کی اور اپنے مدارس طلباء کی مدد سے اسلام آباد میں حکومت کو پریشان کرنے میں کامیاب رہے لیکن وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے ہٹانے کے لیے یہ عمل کافی نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت دہشت گردوں کو پناہ گاہ دینے کے اپنے کردار کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر مشکوک ہے اور حال ہی میں فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس( ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں پاکستان کو رکھا گیا ہے اور اس سرزنش کو پاکستانی فوج بھی نظرانداز نہیں کرسکتی ہے۔ اس طرح مزید سیاسی عدم استحکام کی اجازت دینے یا اس کی تائید کرنے سے پاکستان کی خراب شبیہ اور اس کے جوہری ہتھیاروں کو سنبھالنے کی صلاحیت کو لے کر عالمی تشویش میں اضافہ ہوگا۔لہذا ایک اندازے کے مطابق پاکستانی فوج نے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ فضل الرحمن کے پاس اس تحریک کے علاوہ اور بھی ارادے ہیں لیکن اسلام آباد میں محاصرہ کے علاوہ مزید ارادوں کو عملی جامہ پہننا ان کے لیے ناممکن ہوگا۔

پورے پاکستان کے اندر یہ افواہ پھیل رہی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوا کی میعاد میں مزید تین برس کی توسیع سے سینئیر جرنلرز کے درمیان ناراضگی ہے۔اس لیے ان میں سے کچھ رحمان کی آزادی مارچ کی حمایت کررہیں ہیں حالانکہ یہ صرف قیاس آرائی ہے۔

اگر جے یو آئی کی زیر قیادت میں آغاز کیا گیا یہ مارچ آئندہ کچھ دنوں تک یونہی چلتا رہے تو مولانا فضل الرحمن اپنے بنیادی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔فضل الرحمن نے کئی دہائیوں سے فن کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی کو سیراب کیا ہے ، معمولی انتخابی تعداد اور انتخابی اساس کے باوجود ، جے یو آئی-ف نے آخری لمحے میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ باندھ لینے پر مجبور کرلیا ہے۔

پاکستان میں ایک مشہور مقولہ ہے 'جدن جتے ادے نال' یعنی جو جیتے گا ہم اس کے ساتھ ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اسی بات پر عمل کرتے ہیں ۔

پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ، مولانا فضل الرحمن ، جو ایک انتہائی مستحکم شعبے کے سب سے زیادہ عملی سیاسی زندہ رہنما کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں، انہوں نے 27 اکتوبر کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف 'آزادی مارچ' کی قیادت کی۔

ایک اندازے کے مطابق اسلام آباد میں اس مارچ میں 2 لاکھ سے زیادہ پیروکار جمع ہوگئے تھے۔

جے یو آئی کے رہنما کا الزام ہے کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔
ہفتہ (9 نومبر) کو آزادی مارچ کو دو ہفتے مکمل ہوگئے ۔ عمران خان کی حکومت حزب اختلاف رہبر کمیٹی کی گفتگو کرنے والی ٹیم کے ساتھ غیر یقینی مذاکرات میں داخل ہوئی تھی۔

شدید موسم، شدید بارش اور سرد راتوں کی وجہ سے مارچ میں کچھ مقامی شرکاء کو مارچ چھوڑ کر گھر کا رخ کرنا پڑ رہا ہے ۔

پاکستانی تجزیہ کار نے فصل الرحمن کی طرف سے درپیش چلینج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کے جو مقاصد تھے وہ بغیر حاصل ہوئے ہی ختم ہوگئے ہیں۔

اس وقت پاکستان کی اہم سیاسی جماعتیں جن میں پی ایم ایل۔این(پاکستان مسلم لیگ۔نواز) اور پی پی پی(پاکستان پیپلز پارٹی) پر مختلف قسم کے بدنظمی کے الزامات عائد کیے ہیں، پاکستان کے سابق وزیر ا اعظم نواز شریف اور سابق صدر عاصف زرداری پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔مزید یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کے شدید علیل ہونے کی وجہ سے انہیں طبی علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا جاسکتا ہے۔یہ بات بھی عیاں کی جارہی ہے کہ پی ایم ایل۔این کے اندر نواز شریف کی بیٹی اور بھائی کے درمیان قیادت کو لے کر سیاسی رسا کشی ہے۔وہیں اندازہ یہ بھی لگایا جارہا ہے کہ صحیح وقت ملتے ہی پی ایم ایل۔این کی قیادت کو نواز شریف کی بیٹی مریم کے سپرد کردیا جائے گا۔

وہیں پی پی پی کے سیاسی حالت بھی غیر مستحکم ہے۔پی پی پی کے سینیئر رہنماء عاصف علی زرداری جن پر بدعنوانی سے متعلق الزامات عائد ہیں، ان کی صحت بھی تشویشناک بتائی جارہی ہے۔وہیں ان کے بیٹے بلاول بھٹو جن کی سیاسی پرورش ان کی والدہ بینظیر بھٹو اور دادا ذوالفقار علی بھٹو نے کی ہے وہ آہستہ آہستہ پاکستان کے ہنگامہ خیز سیاست میں پی پی پی کی ساکھ اور رسائی کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس مارچ کے تناظر میں فصل الرحمن کو پاکستان کے موجودہ سیاسی صورت حال میں اپنی حیثیت کو قائم کرنے کا نہ صرف موقع حاصل ہوا ہے بلکہ وہ اپنے حریف عمران خان کو سیاسی میدان میں شکست دینے کی تیاری میں بھی مصروف نظر آرہے ہیں یہ دھرنا اسی جانب ایک قدم ہے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمان محض 27 برس کی عمر میں جے یو آئی کے امیر مقرر کیے گئے اور خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرا اسماعیل خان ان کا گڑھ رہا ہے جہاں سے ان کے والد قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔رحمان پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت اثر ورسوخ رکھتے ہے۔

وہیں اس کے برعکس عمران خان نے سنہ 1996 میں اپنی جماعت پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کی بنیاد رکھتے ہی سیاست کی طرف اپنا پہلا قدم رکھا۔محض ایک مختصر عرصے میں عمران خیبر پختونخوا میں معتبر سیاسی وجود کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔برس 2018 میں ہوئے پاکستان کے عام انتخابات میں فضل الرحمن اور ان کی پارٹی کو پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پختوانخواہ کے شیر کو سیاست میں نیا قدم رکھنے والے عمران خان سے شکست حاصل ہوئی تھی۔

جولائی 2018 سے جب عمران خان نے قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے اور بعد ازاں روال پنڈی سے ملی مدد اور توثیق سے وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں تب سے فضل الرحمن حکومت کی تنقید کرتے آرہے ہیں اور یہ الزام بھی عائد کیا کہ عمران خان یہودی لابی، مغرب اور ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔

اگر عمران خان کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں تو سنہ 2016 میں عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بالکل اسی طرح کی تحریک کی قیادت کی تھی ۔رحمان نے جے یو آئی کی قیادت کی اور اپنے مدارس طلباء کی مدد سے اسلام آباد میں حکومت کو پریشان کرنے میں کامیاب رہے لیکن وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے ہٹانے کے لیے یہ عمل کافی نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت دہشت گردوں کو پناہ گاہ دینے کے اپنے کردار کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر مشکوک ہے اور حال ہی میں فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس( ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں پاکستان کو رکھا گیا ہے اور اس سرزنش کو پاکستانی فوج بھی نظرانداز نہیں کرسکتی ہے۔ اس طرح مزید سیاسی عدم استحکام کی اجازت دینے یا اس کی تائید کرنے سے پاکستان کی خراب شبیہ اور اس کے جوہری ہتھیاروں کو سنبھالنے کی صلاحیت کو لے کر عالمی تشویش میں اضافہ ہوگا۔لہذا ایک اندازے کے مطابق پاکستانی فوج نے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ فضل الرحمن کے پاس اس تحریک کے علاوہ اور بھی ارادے ہیں لیکن اسلام آباد میں محاصرہ کے علاوہ مزید ارادوں کو عملی جامہ پہننا ان کے لیے ناممکن ہوگا۔

پورے پاکستان کے اندر یہ افواہ پھیل رہی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوا کی میعاد میں مزید تین برس کی توسیع سے سینئیر جرنلرز کے درمیان ناراضگی ہے۔اس لیے ان میں سے کچھ رحمان کی آزادی مارچ کی حمایت کررہیں ہیں حالانکہ یہ صرف قیاس آرائی ہے۔

اگر جے یو آئی کی زیر قیادت میں آغاز کیا گیا یہ مارچ آئندہ کچھ دنوں تک یونہی چلتا رہے تو مولانا فضل الرحمن اپنے بنیادی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔فضل الرحمن نے کئی دہائیوں سے فن کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی کو سیراب کیا ہے ، معمولی انتخابی تعداد اور انتخابی اساس کے باوجود ، جے یو آئی-ف نے آخری لمحے میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ باندھ لینے پر مجبور کرلیا ہے۔

پاکستان میں ایک مشہور مقولہ ہے 'جدن جتے ادے نال' یعنی جو جیتے گا ہم اس کے ساتھ ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اسی بات پر عمل کرتے ہیں ۔

Intro:Body:

11 nov


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.