عراقی طبی عہدیداروں اور سماجی کارکنوں نے بتایا کہ بدھ کے روز جنوبی عراق میں ایک شیعہ عالم دین کے پیروکاروں کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 6 حکومت مخالف مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور 52 زخمی ہوگئے۔
عراق کے مقدس شہر نجف میں مظاہرین اور شیعہ عالم مقتدا الصدر کے پیروکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جہاں مظاہرین دھرنا دے رہے تھے۔
سماجی کارکنان کے مطابق، الصدر کے حامیوں نے دھرنے والے مقام پر دھاوا بول دیا اور احتجاجی خیموں کو نذر آتش کر دیا۔
مظاہرین نے انہیں لاٹھیوں کا استعمال کرتے ہوئے داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی، تاہم گولیاں چلنے سے ماحول بدل گیا اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔
مظاہرین اور عراقی حکومت کے مابین تصادم کے درمیان الصدر کے حامی حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کھل کر سامنے آئے، جس کے سبب ماحول سہ رخی ہو گیا۔
مقتدی الصدر نے بعد ازاں نو منتخب وزیر اعظم محمد علاوی کی جگہ خود کو وزیر اعظم کے لیے پیش کر دیا۔ لیکن عراق میں زبردست سیاسی بحران کے سبب حالات کس رخ پر جائیں گے، فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔
غور طلب ہے کہ چار ماہ سے زائد مظاہروں کے دوران اب تک سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 500 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔
حکومت مخالف مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر انتخابات کرائے جائیں۔ اور سیاسی اشرافیہ کے بجائے عام آدمی کو وزیر اعظم بننے کا موقع دیا جائے۔