افغانستان میں مشکل معاشی حالات نے کابل کے کچھ باشندوں کو پیسے کمانے کے لیے اپنے گھریلو سامان کو فروخت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک پوری گلی سیکنڈ ہینڈ سامان کی منڈی بن گئی ہے، کیونکہ لوگ اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے کے لیے کچن کے سامان اور فرنیچر جیسے سامان فروخت کرنے کے لیے مجبور ہیں۔
اشیاء کی قیمتیں کافی کم ہیں، ان کی اصل قیمت سے تقریبا آدھی ہے، لیکن دکانداروں کا کہنا ہے کہ لوگ موجودہ معاشی حالات میں اس زیادہ رقوم کی ادائیگی نہیں کر سکتے ہیں۔
کابل کے رہائشی زاہد اسماعیل خان نے کہا "ہمارے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے ، انہیں نوکریوں کی ضرورت ہے ، انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے وہ اپنے گھر کا سامان اپنی مرضی اور خوشی سے فروخت نہیں کر رہے ہیں۔"
سیکنڈ ہینڈ سامان فروش ضمیر خان نے کہا کہ ہم یہ اشیاء لوگوں سے خریدتے ہیں اور پھر ہم انہیں یہاں بیچ دیتے ہیں۔ ہر سامان کی اصل قیمت تقریبا، 30 ہزار افغانی کرنسی سے 40 ہزار افغانی کرنسی ہے، لیکن اب ہم انہیں یہاں 10ہزار افغانی کرنسی سے 12 ہزار افغانی کرنسی میں فروخت کرتے ہیں۔ قیمتیں بہت کم ہیں کیونکہ یہاں نوکریاں نہیں ہیں اور لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
US Drone Strike: صرف افسوس کرنا اور معذرت کرنا کافی نہیں
وہیں کابل کے فروٹ فروش محمد ابراہیم نے کہا کہ افغانستان کے تمام لوگ متاثر ہوئے ہیں پھل فروشوں سے لے کر ڈرائیوروں تک ، دکانداروں سے لیکر ہوٹل مالکان تک ہر کسی کو معاشی مسائل درپیش ہیں۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازمین کو تنخواہ مل جائے تو کچھ مسائل حل ہو جائیں گے ، لوگ اپنے خاندانوں کے لیے کھانا خرید سکیں گے اور اپنے معاشی مسائل حل کر سکیں گے۔
دو دہائیوں تک امریکی مداخلت اور اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود طالبان کے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی افغانستان میں بے روزگاری کی شرح 30 فیصد سے زیادہ تھی اور آدھے سے زیادہ افغان غربت میں رہتے تھے۔ لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد بے روزگاری کی شرح میں کافی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا تین میں سے ایک افغان نہیں جانتا کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ ملک کے 5 سال سے کم عمر کے تقریبا نصف بچوں کو اگلے 12 ماہ میں شدید غذائیت کا شکار ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔