افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اعلیٰ حکام یک روزہ کانفرنس کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران میں جمع ہوئے ہیں تاکہ طالبان کے زیر اقتدار ملک کی صورت حال اور اس کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے وزرائے خارجہ نے بدھ کے روز تہران میں ملاقات کی جس میں چین اور روس کے وزرائے خارجہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
ميزبان ملک کے نائب صدر محمد مخبر نے اس ايک روزہ اجلاس کا افتتاح کيا۔ طالبان کو اس اجلاس ميں شرکت کی دعوت نہيں دی گئی تھی۔
یہ کانفرنس ایران کے آن لائن پیٹرول ڈسٹریبیوشن سافٹ ویئر کو ایک بڑے سائبر حملے میں ہیک کیے جانے کے ایک دن بعد ہوئی جس نے ملک بھر کے پیٹرول اسٹیشنوں کو متاثر کیا۔
محمد مخبر نے کانفرنس کو بتایا کہ افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی شکست کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ پورے خطے میں اپنی تباہ کن پالیسیوں کو ترک کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ داعش (آئی ایس آئی ایس)، جسے محمد مخبر نے "خطے میں امریکی پراکسی فورس" کہا ہے، اب اس نے خانہ جنگی کو بھڑکانے کے مقصد سے افغانستان میں سیکورٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کے بعد اقوام متحدہ کے سربراہ، انتونیو گوٹیرس نے نیویارک میں ریکارڈ کیے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ افغانستان کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے جو فوری امداد کا مطالبہ کرتا ہے۔
گٹیرس نے یہ بھی کہا کہ وہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حملوں سے شدید پریشان ہیں اور انہوں نے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے اور منشیات کی اسمگلنگ کے لیے کوششوں پر زور دیا۔
تمام ساتوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ طور پر اس کانفرنس کا خیرمقدم کیا اور افغانستان میں ٹوٹ پھوٹ یا خانہ جنگی سے بچنے کے لیے پڑوسی ریاستوں کی طرف سے مسلسل تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے ابھی تک غیر طے شدہ وقت پر اگلی میٹنگ کی میزبانی پر آمادگی ظاہر کی۔
- اقوام متحدہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کو مزید فروغ دے گا: سیکرٹری جنرل
- طالبان نے یقین دلایا، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی: شاہ محمود قریشی
- افغانستان میں بدتر صورتحال پر یونیسیف نے خبردار کیا
بدھ کی کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران، ایرانی وزیر خارجہ امیرعبداللہیان نے کہا کہ افغانستان ابھی ببی ایسی سیاسی حالت تک پہنچنے سے کافی دور ہے جو تمام افغان عوام اور گروہوں کے لیے قابل قبول ہو۔
انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں حکومت کی نئی صورتحال کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا وقت اس بات پر منحصر ہے کہ ملک میں ایک جامع حکومت کتنی تیزی سے تشکیل پاتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی آزادی اور براہ راست غیر ملکی مداخلت کو مسترد کرنا بھی ضروری ہے اور یہ کہ طالبان کو افغان سرزمین کی ضمانت دینی چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے کہا کہ "پڑوسی ریاستوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ طالبان رہنماؤں اور دیگر افغان فریقوں پر اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ حکومت کی تشکیل میں اجتماعی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جا سکے اور اس عمل کو آسان بنایا جاسکے۔"