میانمار میں حال ہی میں فوجی تختہ پلٹے جانے کے خلاف اتوار کو ملک بھر میں مظاہروں کے دوران پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہوئی جھڑپوں میں کم از کم 18 مظاہرین مارے گئے ہیں۔ اس دوران 30 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ کریک ڈاؤن کے دوران پولیس کی جانب سے 18 مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ اسے جو معلومات موصول ہوئی ہیں اس کے مطابق، اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
میانمار کے سب سے بڑے شہر یانگون میں پولیس کی گولیوں سے تین مظاہرین مارے گئے ہیں۔ مارے گئے تینوں نوجوانوں کے فوٹو فیس بک پر بھی پوسٹ کیے گئے ہیں۔
جنوبی شہر باگو میں بھی ہجوم کو منتسر کرنے کے لیے پولیس کو گولیاں چلانی پڑیں، جس میں دو لوگوں کی موت ہوگئی۔ اس کے علاوہ شمالی شیر مانڈلے میں پولیس کی گولی سے ایک شخص کی موت ہوگئی جس کا مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اراودی کے مطابق، یکم فروری کو تختہ پلٹے جانے کے خلاف بڑے مظاہروں کی شکل میں اتوار کو میانمار کے کئی شہروں میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر اتر آئے اور ان کی تحریک چوتھے ہفتے میں داخل ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے افسران کی سختی کے سبب مظاہرین اور پولیس کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
ڈاوی واچ کے مطابق، 33 مظاہرین زخمی تھے جس میں سے زیادہ تر ہلاک ہوئے ہیں۔
ینگون میں اس دوران فائرنگ کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ پولیس نے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا ہے۔
ڈاوی واچ نے میانمار کے متعدد شہروں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ 'مبینہ طور پر ہلاکتیں ینگون، ڈاوی، منڈالے، مائیک، باگو اور پوکوکو میں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہیں'۔
یہ مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ یکم فروری کو ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں بے دخل ہونے کے بعد آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو اقتدار میں بحال کیا جائے۔
واضح رہے کہ گذشتہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے ساری طاقتوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور کاؤنسلر آنگ سان سوچی اور صدر ون منٹ سمیت دیگر اعلی افسران کو حراست میں لے لیا تھا۔ ان پر انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزام ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک نے میانمار کے اعلی فوجی افسران پر پابندی عائد کردی ہے۔