امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ فروری میں اپنے اولین دورئہ بھارت کے موقعے پر 24 فروری کو دہلی اور 25 فروری احمد آباد میں ہونگے۔ فی الوقت احمد آباد سے 13کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم میں اُسی طرز کی ایک بڑی تقریب کے انعقاد کی تیاریاں کی جارہی ہیں، جس طرح کی تقریب گزشتہ سال ستمبر میں ہوسٹن میں 'ہاؤڈی مودی' نام سے منعقد کی گئی تھی۔ٹرمپ بھارت کا دورہ ایک ایسے وقت پر کررہے ہیں، جب امریکہ میں اُن کے خلاف مواخذہ کی کارروائی میں وہ کچھ دن پہلے ہی بری ہوئے ہیں۔
امریکہ میں تعینات رہے سابق بھارتی سفیر، ارون سنگھ کا ماننا ہے کہ امریکہ میں الیکشن کا سال ہونے کے تناظر میں یہ دورہ ٹرمپ کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے انہیں عالمی سطح پر اپنے اختیارات کا مظاہرہ کرنے کا موقعہ فراہم ہورہا ہے۔
سوال : امریکہ میں صدارتی انتخابات اسی سال ہورہے ہیں اور صدر ٹرمپ کی معیاد کا یہ آخری مرحلہ ہے۔ اس صورتحال میں آپ ٹرمپ کے دورئہ بھارت کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب : ہمارے یہاں امریکی صدر کا کوئی بھی دورہ جوش و خروش پیدا کرتا ہے۔ ابھی صدر ٹرمپ کے دورے میں دس دن باقی ہیں، لیکن میڈیا میں یہ باعث گفتگوہے۔لوگ بھی اس کے بارے میں بات کررہے ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ دو نوں ممالک کے تعلقات کو حکمت عملی اور معمول کی سیاست سے بھی کچھ زیادہ اہمیت حاصل ہے۔در اصل دونوں ممالک کے عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ دو طرفہ تعلقات کا ایک اہم پہلو ہے۔ انڈین امریکن کی تعداد چالیس لاکھ ہے جبکہ دو لاکھ بھارتی طالب علم امریکہ میں زیر تعلیم ہیں۔امریکہ میں ملازمتوں کے مواقعوں کے سبب اور دونوں ملکوں سے جڑے روزگار کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ امریکہ جاتے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے ساتھ عوام کے توقعات وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ میرے خیال سے امریکی صدر کے اس دورے کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ دونوں ملکوں کامختلف سطحوں پرمضبوط روابط کے لئے اعلیٰ سطح پر اس طرح کا رابطہ کافی اہم ہوتا ہے۔ اسی لئے صدر کلنٹن کے بعد ہر امریکی صدر نے بھارت کا دورہ کیا ہے۔
سوال :براک اوبامہ بھارت دو بار آئے تھے ۔
جواب: ہاں ، اوبامہ 2 بار آئے تھے ۔ انہوں نے پہلا دورہ اپنی صدارتی معیاد کے پہلے مرحلے میں کیا تھا ۔ اگر آپ کو یاد ہوگا، کلنٹن نے اپنے دور حکمرانی کی دوسری معیاد کے آخر پر بھارت کا دورہ کیا تھا۔جارج بش بھی دوسرے مرحلے کی اپنی صدارتی معیاد کے آخر پر بھارت آگئے تھے ۔ اس لحاظ سے یہ اہمیت کا حامل ہے کہ ٹرمپ اپنی صدارتی معیاد کے پہلے ہی مرحلے کے آخر پر یہاں آرہے ہیں۔اس سے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے اُن کی ذاتی طور پر بھی دلچسپی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔در اصل اس دورے میں اُن کے اپنے سیاسی مفادات بھی مضمر ہیں۔
سوال : صدر ٹرمپ حال ہی میں اپنے ملک میں مواخذہ کی کارروائی سے بری ہوکر آئے ہیں۔ کیا دورہ بھارت اُنہیں ملکی سطح پر اپنی اِس کامیابی کا پیغام بین الاقوامی سطح پر دینے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے؟
جواب: بالکل ایسا ہی ہے۔ اپنے ملک میں انہیں امریکی کانگریس نے مواخذہ کی کارروائی کے بعد5فروری کو بری کردیا ہے۔اس سے قبل 4فروری کو انہوں نے امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں ( سٹیٹ آف دی یونین ) سے خطاب کیا ، جسے سراہا گیا۔ اس تقریر میں انہوں نے افریقین امریکن اور ہسپانوی کمیونٹی کے بارے میں بھی بات کی۔ ملکی سطح کے معاملات پر بات کرنے کے بعد اب انہیں بین الاقوامی سطح پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ یہ ظاہر کرسکیں کہ اُنہیں بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے۔آج دُنیا میں چند ایک ہی ممالک ہیں، جہاں اُن کا اس طرح استقبال کیا جاسکتا ہے ،جیسا بھارت میں ان کا استقبال کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
سوال : کیا یہاں لاکھوں لوگ اُن کا استقبال کریں گے؟
جواب : جی ہاں، بھارت میں لوگ اُن کا استقبال کرنے کے لئے سڑکوں پر آجائیں گے ۔ احمد آباد کے اسٹیڈیم میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجائیں گے۔اس کے برعکس بعض ممالک میں اُن کے اُن بیانات پر تشویش کیا جارہا ہے، جو انہوں نے اپنے حلیف ممالک اور ساتھیوں کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے دیے ہیں۔ان ممالک میں سیریا اور افغانستان کے بارے میں اُن کی پالیسی پر خدشات پائے جاتے ہیں۔ یہ اُن کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ ایسے ممالک کو الگ تھلگ کرنے کا عندیہ دے سکیں۔جب صدر ٹرمپ کچھ دن پہلے ایکو یڈر کے صدر سے ملے تھے، تو وہ اُس موقع پر یہ کہنا نہیں بھولے تھے کہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ اسی طرح بھارت میں ہونے والے اُن کے استقبال سے انہیں کافی مدد ملے گی ۔
سوال: وزیر اعظم مودی زیادہ تر مناظریات کی طرف توجہ دیتے ہیں لیکن کیا اس دورے کے دوران مناظریات سے بڑھ کر عملی طور پر کچھ تجارتی معاہدوں کے اعلان کی بھی توقع ہے؟
جواب: بین الاقوامی تعلقات میں مناظریات کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔ ان کے ذریعے پیغامات دیئے جاتے ہیں ۔ لیکن عملی اقدامات بھی بہت ضروری ہیں۔ اب تک یہ واضح ہے کہ دونوں ملک دفاعی تعاون کے معاملے پر کچھ معاہدوں کو حتمی شکل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو اس سے دونوں ملکو ں کے درمیان گہرے تعلقات کا عندیہ ملے گا۔اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے حوالے سے کتنا پر اعتماد ہیں۔ کیونکہ ہم اشیاء دوسرے ملکوں سے تب ہی خریدتے جب ہمیں اُن پر اعتماد ہو۔ دفاعی معاملات کے بعد تجارت اور معیشت سے جڑے معاملات اہمیت کے حامل ہیں۔ میں نے امریکہ میں تعینات بھارتی سفیر کا بیان دیکھا، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اب تجارت 160بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے تجارتی تعلقات ہر گزرنے والے سال کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں اور بھارت کے لئے امریکہ سب سے بڑا تجارتی معاون ہے۔تاہم دوطرفہ تجارتی تعلقات میں کچھ مسائل بھی ہیں۔ ستمبر سے ہم سنتے آئے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان محدود تجارت کے حوالے سے کچھ معاہدے ہونے والے ہیں۔ اب فروری کا مہینہ ہے اور ابھی تک یہ معاہدے نہیں ہوپائے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں طرف کے تجارتی تعلقات میں کچھ مسائل ہیں۔ بعض اوقات کسی سمجھوتے پر پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔لیکن فی الوقت اس ضمن میں پر عزم کوشش جاری ہے۔اُمید ہے کہ مسائل دور ہوجائیں گے ۔ اگر محدود تجارت کے حوالے سے بھی معاہدے ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں دوطرفہ تعلقات میں مضبوطی کا ایک پیغام ملے گا۔
سوال: اگر تجارتی معاہدے نہیں ہوپائے تو کیا یہ مایوس کُن ہوگا؟ ایسا ہوا تو کیایہ ہمارے لئے پریشانی کی بات ہوگی؟
جواب : اگر ایسا ہوا بھی تو مجھے نہیں لگتا کہ اس پر فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔دونوں ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ دونوں کو ان مفادات کے حصول کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔اگر محدود تجارتی معاہدے ہی ہوتے ہیں، تو اس سے بھی تعلقات میں مضبوطی کا اظہارہوگا ۔ یہ بھی ایک اچھی بات ہوگی۔ اس طرح سے صدر ٹرمپ کو بھی اپنے ملک میں یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ انہوں نے میکسیکو، کینڈا، جنوبی کوریا، چین اور بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کئے ہیں۔انہیں اپنے ملک کے عوام کو یہ دکھانا ہے کہ انہوں نے کچھ نئے طرح کے تجارتی معاہدے کئے ہیں، جن کی وجہ سے امریکہ کو فائدہ ہوگا۔ مجھے ہندوستانی نقطہ نگاہ سے لگتا ہے کہ اگر ہم امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات کے متمنی ہیں، جو ضروری ہیں ۔تو ہمیں معمول کی تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ کچھ نئے طریقے بھی اختیار کرنے ہونگے ۔ مثال کے طور پر بھارتی نمائندوں نے تجویز پیش کی ہے کہ ہمیں توانائی کے شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔جیسے کہ ہم اب تیل یا گیس امریکہ سے خریدتے ہیں۔ پہلے ہم ایسا نہیں کرتے تھے۔اسی طرح سے ہم شہری ہوا بازی کے شعبے میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم زیادہ سے زیادہ جہاز خریدنے والے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر امریکہ سے ہی آئیں گے۔ اس سب کے نتیجے میں ہمارا تجارتی خسارہ کی بھرپائی ہوسکتی ہے، جس سے ہم فی الوقت دوچار ہیں۔مزید آگے بڑھ کر ہم ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کرسکتے ہیں۔ہم اب 5Gمصنوعی ذہانت اور قوانٹم کمپوٹنگ کے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ حیاتیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی متعارف ہورہی ہے۔ہمارے رہنے اور کام کرنے کے طریقے مستقبل میں تبدیل ہوجائیں گے۔ بھارت اور امریکہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تعلقات کو مزید کار آمد بنانے کے لئے نئے شعبوں میں تعاون کریں۔
سوال : ڈیٹا لوکلائزیشن بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایک مسئلہ ہے۔
جواب : یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ دُنیا بھر میں اس پر بات ہورہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوجانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے معاشروں کو کچھ مشکلات درپیش ہوگئے ہیں۔اس کی وجہ سے قوائد ضوابط مقرر کرنے اور نگرانی کے حوالے سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔یہ صرف بھارت اور امریکہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یورپ میں آج پرائیوسی سے جڑے مسائل اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ فرانس نے ڈیجیٹل کمپنیوں پر ٹیکس عائد کئے ہیں اور امریکہ اس سے خوش نہیں ہے۔حالیہ رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ چین نے 150ملین امریکیوں کا ڈاٹا ہیک کیا ہے اور امریکہ کے لئے یہ ایک باعث تشویش معاملہ بناہوا ہے۔اس ضمن میں امریکہ نے چار چینی افراد پر پابندی لگادی ہے، جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق پیپلز لبریشن آرمی سے ہے۔اس طرح کے مسائل پر دُنیا بھر میں بات ہورہی ہے۔نئی ٹیکنالوجی انسانی معاشروں کے لئے نئے طرح کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ہمیں ان کا حل نکالنے کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال :ہم نے صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر کئی متنازعہ بیانات دیکھے ہیں۔اب امریکی سنیٹرز یہاں تک کہ ریپلکن لنڈسے گراہم ، جنہیں ٹرمپ کے قریب سمجھا جاتا ہے، انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ کو لکھا ہے کہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی پابندیاں کم کردی جائیں، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ جبکہ شہریت ترمیمی بل اور قومی شہریت رجسٹر کے خلاف بھی امریکی کانگریس میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟
جواب: اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک صدر ٹرمپ سے متعلق ہے اور دوسر امریکی کانگریس سے متعلق ہے۔ جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے ، اُن کے بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی ہے ۔ وہ کبھی کبھی اتنے سر گرداں ہوجاتے ہیں کہ موجودہ امریکی ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کا بھی لحاظ نہیں رکھتے ہیں۔ میں اُس وقت دنگ رہ گیا تھا جب وہ جولائی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کررہے تھے ۔اُس وقت انہوں نے کہا کہ وہ کشمیر پر ثالثی کرنے کے لئے تیار ہیں۔میں اس لئے دنگ نہیں رہ گیا تھا کہ میں حکومت کا حصہ ہوں بلکہ میں اس لئے حیران رہ گیا تھا کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھارتی وزیر اعظم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ امریکی صدر کو ثالثی کرنے کا کہیں گے۔اس لئے صدر ٹرمپ نے اُس وقت جو کچھ بھی کہا، وہ اپنے طور پر کہہ رہے تھے ۔بھارتی وزارت خارجہ نے اسکی سختی سے ترید کی ۔اس کے بعد ٹرمپ نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ ثالثی کریں گے بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کی مدد کے لئے تیار ہیں۔ افغانستان کے تناظر میں صدر ٹرمپ کی اس وقت مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کا تعاون برقرار رکھیں۔کیونکہ امریکہ طالبان کے ساتھ کسی طرح کا معاہدہ کرنے کے لئے امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ستمبر میں جب صدر ٹرمپ نے ہوسٹن میں 'ہائوڈی مودی' تقریب میں شرکت کی تو اس کے بعد وہ نیو یارک میں عمران خان سے بھی ملے ۔اس موقع پر جب اُن سے پوچھا گیا کہ پاکستان دہشت گردی کو روکنے کے لئے کیا کررہا ہے۔ تو ٹرمپ نے جوابا کہا کہ ان کی توجہ اس وقت صرف ایران کی جانب مبذول ہے کیونکہ ایران کچھ کررہا ہے۔ امریکہ بخوبی اس بات کو سمجھ رہا ہے کہ پاکستان دہشت گرد گرپوں کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ بھارت کشمیر پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔اس لئے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ امریکہ، پاکستان کے ساتھ کس حد تک تعلقات بنائے رکھتا ہے۔ اب جہا ں تک امریکی کانگریس کا تعلق ہے، وہ امریکی انتظامیہ سے بالکل مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔وہ خود کو حکومت کے ہم پلہ محسوس کرتا ہے۔ کشمیر پر امریکی کانگریس میں پیش کی جارہی قرار داد ڈیموکریٹس کے اراکین کے تعاون سے پیش کی جارہی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بھارت مخالف ہیں یاامریکہ بھارت تعلقات کے مخالف ہیں، لیکن کشمیر ، شہریت ترمیمی بل اور قومی شہریت رجسٹر کے معاملات پر اُن کی اپنی پالیسی ہے۔یعنی وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، وہ ان کی پالیسی کے مطابق ہے۔ان کی اپنی سیاست ہے، جس میں وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ان جیسے مسائل پر تنقیدی پالیسی کے حامل ہیں۔ لیکن جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، اسے وہی کرنا چاہیے جو اس کے لئے صیح ہے۔بھارت امریکی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور اسے امریکی کانگریس کے ساتھ بھی رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ خاص طور سے سال 2000کے بعد امریکن کانگریس میں ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن کے درمیان اتفاق تھا۔ دوسرا ملک جس میں پارلیمنٹ کے اندر دو پارٹیوں کے درمیان اتحاد دیکھنے کو ملتا ہے، صرف اسرائیل ہے۔ لیکن اِس وقت امریکین کانگریس میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکین کے درمیان دشمنیاں چل رہی ہیں۔اس لئے ڈیموکریٹس امریکی صدر اور وزیر اعظم مودی کے تعلقات کو ہدف تنقید بنارہے ہیں اور وہ بھارتی حکومت کے بعض معاملات میں بھی کچھ حد تک تنقید کررہے ہیں۔بھارت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس صورتحال کا دھیان میں رکھے اور تعلقات بہتر بنانے کے لئے کام کرے۔
سوال : ہوسٹن میں 'ہاوڈی مودی' ایونٹ کے حوالے سے ری پبلکین نے یہ تاثر لیا ہے کہ یہ تقریب ٹرمپ کی دوسری انتخابی جیت کیلئے بھارت کی جانب سے طرفداری ہے ۔ اب 'کیم چو ٹرمپ' کی تقریب احمد آباد میں ہورہی ہے۔ امریکی انتخابات سے قبل اس طرح کی تقریب کا انعقاد خطرناک ثابت تو نہیں ہوسکتی ہے؟
جواب :امریکی صدر خواہ کوئی بھی ہو، اس کے بھارت دورے کے حوالے سے بھارت کو قیمت ادا کرنی ہے۔بھارت نے صدر کلنٹن اور صدر بش کے لئے بھی اس طرح کی انوسٹمنٹ کی تھی۔آپ کو یاد ہوگا کہ ستمبر 2008میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نے صدر بش کی معیاد کے خاتمے کے موقع پر اُن سے ملاقات کے دوران انہیں بتایا تھا کہ بھارت کے لوگ ان سے پیار کرتے ہیں۔ حالانکہ اُس وقت بش دنیا بھر میں بے حد غیر مقبول تھے۔ اسی طرح اوبامہ کے دور میں بھی اُن کی طرفداری کی گئی۔جب کوئی امریکی صدر بھارت آتا ہے تو آپ کو اس کا استقبال کرنا پڑتا ہے۔ایسا کرتے ہوئے ہم کسی فرد کا نہیں بلکہ امریکہ کے صدر کا استقبال کرتے ہے۔