اپنے ملک میں مواخذہ کی کارروائی سے بری ہوجانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ماہ کے تیسرے ہفتے میں بھارت کا دورہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ اس بات کے کئی اشارے مل رہے ہیں کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارتی تعلقات نئے سرے سے بحال اور بہتر ہو جائیں گے، جو کچھ وقت سے خراب ہیں۔اس ضمن میں کئی موثر اقدامات متوقع ہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ حکومت تجارت کے معاملے میں بھارت کے عالمی کردار کا دفاع کرتی رہی ہے لیکن دوسری جانب اس نے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرکے امریکی مفادات کو ترجیح دی ہوئی ہے۔ بھارت نے بھی اس کے جواب میں سخت پالیسی اختیار کرلی ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے دو طرفہ تجارتی تعلقات بدذائقہ ہوگئے ہیں۔
اس پس منظر کے ہوتے ہوئے اب یہ خدشہ ہے کہ اگر ہم ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے طلب کی جانے والی تجارتی رعایات اُسے دینے پر آمادہ ہوجائیں گے، تو اس کے نتیجے میں ہماری اپنی زرعی معیشت اور ڈائری کی صنعت پر بُرے اثرات مرتب ہونگے۔
اگر ہم واشنگٹن کی منشا کے عین مطابق محصولات کی قدغن ختم کریں گے تو اس کے نتیجے میں امریکہ سے آنے والی مکئی، کپاس، روئی، سویا، گیہوں اور ڈرائی فروٹ جیسی اشیاء کے لیے ہمارے ملک کے دروازے کھل جائیں گے ۔ لیکن کسانوں کی انجمنوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوگا ۔
کیونکہ سوال یہ ہے کہ بھارت جہاں ڈیڑھ کروڑ کسانوں کا انحصار صرف گائے اور بھینسوں کے دودھ کی تجارت پر ہے وہ کیسے امریکی دودھ سے بنی اشیاء کے ساتھ مقابلہ کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ امریکی دودھ اور اس سے بنی اشیاء رعایات کی وجہ سے سستی ہیں۔ اسی طرح اگر امریکی کپاس کو در آمد کیا جاتا ہے تو اس سے ہمارے کپاس سے جڑے کسان خطرات سے دوچار ہوجائیں گی اور اگر جنیاتی طورتبدیل شدہ اشیا کو در آمد کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہماری زندگیاں داؤ پر لگ جائیں گی ۔
جیسا کہ مودی حکومت نے گزشتہ نومبر میں جامع علاقائی معاشی شراکت داری (آر سی ای پی ) کے پلیٹ فارم سے اپنا موقف موثر طریقے سے پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اپنے کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرے گا، ہمیں امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے بھی خوف اور طرفداری سے ماورا ہوکر سوچنا چاہیے۔
ٹرمپ نے اپنے تجارتی خسارے کی بھرپائی کے لیے بھارت اور چین سے اشیاء کی در آمدگی پر ٹیکس کی شرح بڑھائی ہیں اور اس طرح سے ایک طرح کی تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے۔جب بھارت اور چین نے بھی امریکہ کے درآمد پر ٹیکس میں اضافہ کیا تب امریکی کسانوں نے اس پر شور مچایا۔
اب ٹرمپ اپنے ملک میں پیدا شدہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ نئے معاہدے کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ شکایت کررہا ہے کہ بھارت پچھلے کئی سال سے امریکہ سے اپنے تجارتی محصولات میں بھاری اضافہ کرتا آیا ہے او ر اس سے بھاری فائدہ حاصل کرتا رہا ہے۔جبکہ اس کے جواب میں مودی حکومت کا کہنا ہے کہ محصولات کا اطلاق دوطرفہ تجارت کے حجم کے مطابق عائد کیے جاتے ہیں اور یہ زیادہ نہیں ہیں۔
ڈائری اور طبی آلات کی صنعتوں سے جڑے لوگوں کو شکایت ہے کہ دو طرفہ تجارت میں حائل قدغن کی وجہ سے مال بر آمد کرنے کا عمل سُست پڑ گیا ہے۔
امریکہ نے گزشتہ جولائی میں بھارت کو جنرلائزڈ سسٹم آف پرفرنسز( جی پی ایس)کی فہرست سے خارج کردیا ہے۔اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ بھارت اس فہرست میں خود کو شامل کرانے کی کوشش کررہا ہے اور اسکے جواب میں امریکہ، بھارت سے 71ہزار کروڑ روپے کا تجارتی معاہدہ کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔جبکہ وہ طبی آلات کی تجارت کے حوالے سے بھارت کے ساتھ اپنا من پسند معاہدہ کرنے میں پہلے ہی کامیاب ہوچکا ہے۔
اسی طرح بھارت آم، انگور اور انار جیسے پھلوں کو ایکسپورٹ کرنے کے حوالے سے قوائد و ضوابط میں نرمی کا خواہاں ہے لیکن اس کے جواب میں امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت چھ سو بلین ڈالر کے اس کے زرعی اشیاء کے لیے اپنے بازاروں کے دروازے کھول دے۔
سال 2015ء میں کامرس منسٹری نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے امریکہ کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے پولٹری پروڈکٹس درآمد کرنے کے لیے محصولات میں کمی کردی تو اس کے نتیجے میں امریکہ سے آنے والے چکن اور انڈے سستے داموں پر ہمارے بازاروں میں دستیاب ہوجائیں گے اور اس کی وجہ سے ان اشیاء سے متعلق ہمارا اپنا بازار چالیس فیصد تک متاثر ہوگا۔ اس غیر مساوی مقابلہ آرائی میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔
امریکہ کے ساتھ کی جانے والی تجارت بھارت کی مجموعی تجارت کا تین فیصد ہے، پچھلے مالی سال کے دوران بھارت نے 5 ہزار 240 بلین ڈالر کی اشیاء برآمد کیں اور 3 ہزار 550 بلین ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔اس کے باوجود اس دو طرفہ تجارت میں ایک ہزار 690 بلین ڈالر کا فرق ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بھارت کے مارکیٹ سے مزید بھاری فوائد حاصل کرنے کی متمنی ہے۔اس کے نتیجے میں بھارتی کسانوں کو ہونے والی بدحالی کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔
آرگنائزیشن فار اکو نامک کارپوریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (اوای سی ڈی ) کے مطابق صرف سال 2016میں اس تجارتی گیم پلان میں تعاون کرنے کی وجہ سے بھارت کو 2لاکھ65ہزار کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔جبکہ اسی سال چین اپنے کسانوں کو 22 سو بلین ڈالر کا فائدہ دلانے میں کامیاب ہوگیا۔
اب اگر ایسے حالات میں امریکہ سے در آمدات کی اجازت دے دی گئی تو بھارت کی حالت بد سے بدتر ہوجائے گی۔ اگر امریکہ کی خواہش کے مطابق پولٹری کو در آمد کرنے کے محصولات کی شرح کو سو سے گھٹا کر تیس کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہماری زرعی صنعتوں پر بہت برے اثرات مرتب ہونگے ۔ اس لئے یہ مودی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرے، جو قوم کے لئے غذا مہیا کرانے میں جانفشانی سے کام کرتے ہیں ۔