قطر کی راجدھانی دوحہ میں سنیچر یعنی 29فروری کو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طے پائے گئے امن معاہدے سے علاقائی امن و استحکام پر طویل مدتی اثرات مرتب ہونگے۔ اب یہ اثرات (بالخصوص بھارت کے تناظر میں )مثبت ہونگے یا منفی اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اس معاہدے کا مقصد 11 ستمبر کے بعد شروع ہوئے تشدد اور دہشت گردی کو ختم کرنا بتایا گیا ہے، جس نے افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے تباہی مچارکھی ہے۔ ساتھ ہی اس معاہدے کی وجہ سے افغانستان کی جنگ ذدہ سرزمین سے امریکی قیادت والی غیر ملکی افواج کے انخلا کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ لیکن جس طریقے سے یہ معاہدہ کیا گیا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ معاہدہ نہ صرف غیر متوازن ہے بلکہ اس میں موجودہ امریکی مفادات کو ہی ترجیح دی گئی ہے، جن میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مجبوریاں بھی شامل ہیں۔
اس معاہدے میں شامل نکات کو دیکھ کر واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں سیاسی نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس میں لکھا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ نے اب طالبان کو رسمی طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ معاہدے کی دستاویز کہا گیا ہےکہ ' 29فروری 2020 کو طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پایا گیا یہ معاہدہ اسلامی امارت افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا ہے، جسے امریکہ بحیثیت ریاست تسلیم نہیں کرتا ہے۔
معاہدے میں شامل خاص بات یہ ہے کہ طالبان افغانستان کی سرزمین پر کسی گروہ یا فرد کی ایسی سرگرمیوں کو اجازت نہیں دے گا، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے عدم تحفظ کا باعث ہو اس کے بدلے میں امریکہ نے یہ ضمانت دی ہے کہ وہ امن و قانون کے میکانزم کو نافذ کرنے میں مدد کرے گا اور افغانستان سے مقررہ مدت میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کا اعلان کرے گا۔
یہ معاہدہ معرض وجود لانے کے لئے امریکہ کو ایک کھردرے اور طویل مذاکراتی عمل کے دوران اُسے خود سر طالبان لیڈر شپ کے ساتھ بات کرنی پڑی ، جو افغانستان کی منتخب حکومت کو نہیں مانتی ہے۔ اسی لئے معاہدے میں جمہوری طور پر منتخب اشرف غنی کی زیر صدارت حکومت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ اشرف غنی حال ہی میں دوسری بار افغانستان کے صدر منتخب ہوئے ہیں، تاہم انکے حریف عبداللہ اس انتخابی فیصلے کو ماننے سے انکار کررہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت 11ستمبر 2001سے طالبان کے ساتھ کوئی رابطہ بنائے رکھنے میں ہچکچا تا رہا ہے۔ جبکہ دسمبر1999 میں طالبان نے ایک بھارتی ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ میں تعاون دیا تھا، جس کے نتیجے میں بھارت کو کئی دہشت گردوں کو رہا کرنا پڑا تھا۔ یہ بات بھارت کے دل میں کھٹک رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ طالبان کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
اس کے علاوہ سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان کے نمودار ہوجانے کے بعد سے ہی پاکستانی فوج نے اس کی حمایت شروع کردی ۔ اس وجہ سے بھارت کی افغان پالیسی میں پیچیدگیاں حائل رہی ہیں۔ پاکستان نے یہ رویہ امریکہ مفادات کو تقویت پہنچانے کے لئے اختیار کیا تھا اور اس کی وجہ سے خطے میں ایک سرد جنگ کا جنم ہوا۔
جس زمانے میں رونالڈ ریگن امریکی صدر تھے اُس وقت کی امریکہ اور روس کی آپسی دشمنی افغانستان پر روسی قبضے کا سبب بنی۔ روسی قبضے کی وجہ سے سنہ 1980کی دہائی میں افغان مجاہدین پیدا ہوئے۔ عالمی قوتوں کے ٹکراؤ کا خمیازہ سنہ 1980سے ہی افغان عوام کو بھگتنا پڑا ہے۔
کئی وجوہات کی وجہ سے جنوبی ایشیا عالمی سطح پر نمایاں ہوا ہے، جن میں امریکہ روس دشمنی، ایران اور سعودی کے درمیان ٹکراؤ،جہادیوں کو پاکستان کی حمایت اور چین کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ شاہراہ کی تعمیر کے لئے سرمایہ کاری شامل ہیں۔بھارت کی پالیسی بھی ان ہی معاملات کے تناظر میں مرتب ہوتی رہی ہے۔
نئی دہلی نے امریکہ اور طالبان امن معاہدے پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ اُن کوششوں کی حمایت کی ہے، جو افغانستان میں امن، تحفظ اور استحکام پیدا کرنے کی لئے کی جارہی ہیں ۔ بھارت چاہتا ہے کہ تشدد کا خاتمہ ہو، بین الاقوامی دہشت گردی ختم ہو اور افغانستان میں افغانوں کو کنٹرول حاصل ہو اور ایک حتمی سیاسی حل کے نتیجے میں افغانستان میں ایک دائمی امن قائم ہو۔
نئی دہلی نے مزید کہا کہ ایک قریبی پڑوسی کی حیثیت سے بھارت، افغانستان کی حکومت اور عوام کو پرامن، جمہوری اور خوشحال مستقبل کا خواب پورے کرنے میں اپنا تعاون دے گا، تاکہ اس کے نتیجے میں افغانستان کے سماج کے تمام طبقے محفوظ رہیں۔
اس سال کے 29فروری کو ہوئے معاہدے میں افغان حکومت کو نظر انداز کیا گیا ہے اور ایسا طالبان کے کہنے پر کیا گیا۔ اس لحاظ سے افغان حکومت کا اس معاہدے کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گرد گروپ کے ساتھ کیا گیا ہے، جسے کے خلاف خود امریکہ نے 18سال تک جنگ چھیڑ رکھی تھی اور اس جنگ میں مالی اور جانی قربانیاں بھی دیں۔
معاہدے کی رو سے طالبان امریکہ اور اسکے اتحادیوں پر حملہ نہیں کرے گا ۔ یعنی اس حوالے سے بھارت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس لئے اس بات کے امکان ہے کہ بھارتی مفادات کے مخالف عناصر طالبان کو بھارت میں دہشت گردانہ کارروائیوں پر اکسا دیں گے ۔ اس ضمن میں پاکستان اور طالبان کے درمیان روایتی تعلقات بھی بھارت کے لئے ایک باعث تشویش بات ہے۔
امریکہ اور طالبان معاہدے کی حساسیت پہلے دن سے ہی ظاہر ہونے لگی، جب افغان صدر اشرف غنی نے اشارہ دیا کہ اس معاہدے کی رو سے قیدیوں کا تبادلہ امریکہ کی خواہش کے مطابق پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کے لئے ایک اور خدشے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے احیا نو کے نتیجے میں آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ جیسے گروپس کو مدد فراہم ہوسکتی ہے اور انہیں دوبارہ متحرک ہوجانے کا موقعہ مل سکتا ہے۔
دہلی میں ہوئے حالیہ تشدد جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس معاملے نے اسلامک سٹیٹ (آئی ایس آئی ایس) کو متوجہ کیا ہے۔ شمال مشرقی دہلی میں بلوائیوں کے ایک ہجوم کی جانب سے ایک مسلم شخص کی بے دردی سے مارپیٹ کرنے سے متعلق ویڈیو کو آئی ایس آئی ایس کی سائبر ونگ نے جاری کردیا ہے۔اس نے بدلہ لینے کی اپیل کی ہے، جسے اس گرو پ نے ولایت الہند کے نام سے پکارا ہے ۔
اب تک آئی ایس آئی ایس کو بھارت میں افرادی قوت بہت محدود پیمانے پر حاصل ہوئی تھی ۔لیکن اب نئے امکانات کی وجہ سے بھارت کی اندرونی سلامتی کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ امریکا، طالبان امن معاہدہ حساس ہے اور اس کے اہداف محدود ہیں لیکن اس کے کئی طویل مدتی اثرات مثبت نہیں ہونگے ۔ان وجوہات کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے زیادہ پر اُمید صورتحال دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔