امریکہ نے جمعہ کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر چین، میانمار، شمالی کوریا اور بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر درجنوں افراد اور اداروں پر پابندیاں US Imposes Sanctions for Human Rights Violation عائد کر دیں۔
اس کے علاوہ چینی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپنی کو بھی بلیک لسٹ کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ جس پر الزام ہے کہ اس کے ذریعے چہرے کی شناخت کرکے کسی بھی ہدف کی نسل کا تعین کر سکتے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ دو سرکردہ سیاستدانوں اور ایک کمپنی کو چینی صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں Sanctions for Human Rights Violation پر یہ سزا دی گئی ہے۔
میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں Human Rights Violations in Myanmar سے متعلق پابندیوں پر کینیڈا اور برطانیہ نے بھی تائید کی ہے۔ میانمار کی فوج فروری میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو بے دخل کرنے کے بعد ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہی ہے۔
ان مذکورہ ممالک پر اقتصادی اور ویزا کی پابندیاں صدر جو بائیڈن نےجمہوریت سمٹ کے آخری دن اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ میانمار کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرسکتا ہے
امریکہ کے نائب وزیر خزانہ والی ایڈیمو نے ایک بیان میں کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ٹریژری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو بے نقاب کرنے اور ان کا احتساب کرنے کے لیے اپنے ٹولز کا استعمال کر رہی ہے۔
چین پر عائد پابندیوں میں سنکیانگ علاقے کے موجودہ اور سابقہ چیئرمینوں پر امریکی ویزا پابندی بھی شامل ہے، جہاں اقلیتی برادری کے خلاف کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ہزاروں اویغوروں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
یہ پابندیاں لندن کے ایک ٹربیونل کے ایک دن بعد لگائی گئی ہیں کہ خطے میں چینی پالیسیوں نے نسل کشی کی ہے۔
کئی مہینوں تک جاری رہنے والی سماعتوں کے ایک سلسلے کے بعد، لندن میں قائم ایک آزاد ٹریبونل نے فیصلہ دیا ہے کہ چین نے سنکیانگ صوبے میں ایغوروں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا امریکہ سے مطالبہ، اگر وہ جے سی پی او کو بحال کرنا چاہتا ہے تو پابندیاں اٹھائے
برطانیہ میں مقیم وکلاء اور حقوق کے ماہرین کے ایک پینل نے سنکیانگ کے علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے بعد اویغور ٹریبونل نے یہ فیصلہ سنایا۔
جون، ستمبر اور نومبر 2021 میں سماعت ہوئی، جس کے دوران ٹریبونل کے ماہر پینل نے سینکڑوں گواہوں کے بیانات کا جائزہ لیا اور 30 سے زائد گواہوں سے چین کی جابرانہ پالیسیوں کے بارے میں اپنے تجربات کے ساتھ ساتھ ماہر گواہوں سے لائیو شواہد سنے۔
اس سال کے شروع میں امریکہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا جس نے سنکیانگ میں چینی اقدامات کو نسل کشی قرار دیا۔
فروری میں کینیڈا اور ڈچ دونوں پارلیمانوں نے ایغور بحران کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تحریکیں منظور کیں۔