ETV Bharat / international

امریکہ : 'ووٹنگ کے پیش نظر تشدد کے خدشات'

author img

By

Published : Nov 3, 2020, 1:01 PM IST

Updated : Nov 3, 2020, 2:48 PM IST

سینئر صحافی سمیتا شرما نے وائٹ ہاؤس بیورو چیف فار وائس آف امریکہ (وی او اے) اسٹیون ہرمین سے امریکی انتخابات کے حوالے سے زمینی سطح پر چل رہی تیاریوں کے بارے میں گفتگو کی۔

امریکہ صدارتی انتخابات
امریکہ صدارتی انتخابات

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لئے آج ووٹنگ جاری ہے ۔وہیں اس بار تقریباً نو کروڑ سے زائد ووٹ پہلے ہی این پرسن اور پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعہ ڈالے گئے ہیں۔امریکہ دہائیوں میں سب سے زیادہ ووٹرز کے حق رائے دہی کے استعمال کو دیکھنے کے لیے مکمل طور سے تیار ہے۔لیکن ساتھ میں یہ تلخ اور متعدد الزامات سے بھرپور انتخابی مہم رہی ہے۔جس کی وجہ سے متعدد تنظیموں اور بین الاقوامی کرائسس گروپ نے تشدد ہونے کے خدشات ظاہر کیے ہیں۔

امریکہ صدارتی انتخابات

وائٹ ہاؤس کے بیورو چیف برائے وائس آف امریکہ کے ترجمان اسٹیون ہرمین نے کہا کہ اس انتخابات کو لے کر تناؤ اور اضطراب پایا جارہا ہے خاص طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کے ووٹروں یا آزاد امیدواروں کے درمیان، جو جوبائیڈن کی حمایت کر رہے ہیں، حتی کہ کچھ ریپبلکن میں بھی، جو ٹرمپ کے حریف کی حمایت میں سامنے آئے ہیں ان میں بھی یہ ڈر نظر آرہا ہے۔

اسٹیون ہرمین نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر مشیگن جیسی ریاستوں میں بھی خدشات پائے جارہے ہیں کہ لوگوں کے پاس بندوق ہوسکتے ہیں یا انہیں ڈرایا جاسکتا ہے اور اس طرح کا عمل خوفناک تاثرات قائم کرسکتا ہے۔

لیکن واقعی میں اس بات میں زیادہ کوئی سچائی نہیں ہے کہ لوگوں کے باہر جانے اور ووٹ دینے کے جوش و جذبے کو اس سے کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ واقعی میں کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ہورہا ہے، جس نے لوگوں میں ہچکچاہٹ پیدا کردی ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ لوگوں نے پہلے ہی بیلٹ پیپر کے ذریعہ ووٹ دینا مناسب سمجھا۔

وہیں رپورٹ کے مطابق اس اہم انتخابات سےقبل حفاظتی نقطہ نظر سے ناقابل تسخیر بنانے کے لیے وائٹ ہاؤس کے اطراف میں باڑ لگائی جارہی ہے۔ساتھ میں واشٹنگٹن ڈی سی کی نجی تجارتی عمارتوں میں بھی باڑ لگائیں گئے ہیں تاکہ انہیں کسی بھی نقصان سے محفوظ کیا جاسکے۔سینئر صحافی سمیتا شرما سے بات چیت کے دوران ہرمین نے مزید کہا کہ ہمیں ایک تشویش لاحق ہے کہ شاید کچھ معاملے منگل کی رات کو نہیں بدھ کی رات کو پیش آسکتے ہیں، جب ہمارے پاس انتخابات کے حوالے سے واضح تصویر سامنےآجائیگی کہ کیا ہونے والا ہے۔لوگ سڑک پر نکل سکتے ہیں اور صرف چند لوگ ہی تشدد کرسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے پچھلے مظاہروں مین دیکھا ہے کیونکہ یہ بائیں اور دائیں محاذ دونوں لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

ہرمین نے مزید بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ مظاہروں کے دوران واشنگٹن ڈی سی کی سڑکوں اور وائٹ ہاؤس کی اطراف میں کھڑکیوں کو توڑنے اور آگ لگانے جیسے کئی طرح کے تشدد کے عمل، جیسا کہ ہم نے رواں برس کے مظاہروں میں دیکھا ہے، کو روکنے کے لیے بہت سارے اقدامات اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس بار بھی احتیاطی تدابیر اخیتار کی جارہی ہے۔ لیکن اس بار یہ امکان نہیں نظر آرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی طرح کی بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے کو ملے گا۔لیکن اگر کہیں بھی کسی طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس پر توجہ دی جائیگی۔ بہت کچھ انتخابی نتائج پر منحصر ہے۔

کئی سالوں سے امریکی انتخابات اور سیاست کو قریب سے دیکھنے والے ہرمن نے کہا کہ نتائج اس بات پر منحصر ہوں گے کہ پولنگ کتنی درست رہی ہے۔ اگر جوئی بیڈن پنسلوانیہ کے بغیر270 سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ڈرامہ زیادہ نہیں ہوگا۔اگرچہ صدر ٹرمپ نے اس جانب اشارہ دیا ہےکہ وہ نتائج کو چیلنج دینے کے لیے فوری طور پر عدالت کا رخ کرسکتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انتخابات کے دن ہی شام کو نتائج جاری کردیے جانے چاہیے۔

انتخابی نتائج کی واضح تصویر 4 نومبر کی صبح امریکی وقت کےمطابق سامنے آئیگی۔لیکن دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ کیا یہ سنہ 2000 میں جیورج بش اور اے گور کے درمیان ہونے والے کانٹے کی ٹکر جیسا مقابلہ ہوگا۔

ابھی تک جوئی بیڈن کو اس انتخابات میں ایک مستقل برتری حاصل ہے، جو انتخابی مہم کے آخری چند دنوں میں ایک ہندسے تک محدود ہوگئی ہے۔لیکن سیاسی پنڈت اور سروے کرنے والی ایجنسیاں اس بات سے فکرمند ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سنہ 2016 کا سایہ اس پر بھی پڑ جائے۔واضح رہے کہ سنہ 2016 میں ہیری کلنٹن کی جیت کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔جو سیٹیں ٹرمپ نے چار سال قبل کلنٹن سے جیتی تھی، اس بار بھی ٹرمپ ان سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکتےہیں۔انتخابی نتائج سامنے آنے سے پہلے دونوں امیدوار سوئنگ اسٹیٹس پر فوکس کر رہےہیں۔(سوئنگ اسٹیٹس میں دونوں جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتی ہیں۔ سوئنگ اسٹیٹس کا تعین سابقہ الیکشن میں مارجن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔جن ریاستوں میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے وہ سوئنگ اسٹیٹس تصور کی جاتی ہیں۔)

ہرمین نے کہا کہ چاہے بائیڈن کو ایگزٹ پول میں سات سے 4 فیصد آگے دکھایا گیا ہو، لیکن کچھ ریاست وہ زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہوں اور اسی جگہ پر امیدوار اپنی زیادہ توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ظاہری طور پر ٹرمپ فلوریڈا سے جیت حاصل کرتے ہوئے نظر آرہےہیں۔بائیڈن کے لئے فتح کا یہ ایک راستہ ہے اگر وہ فلوریڈا میں جیت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔دونوں امیدواروں کے لیے پنسلوانیا اقتدار حاصل کرنے کی ایک چابی ہے۔پیر کے صدر نے پانچ میں سے دو خطاب مشی گن ریاست میں کی، حالانکہ بیڈن اس سیٹ سے ٹرمپ کے مقابلے 10 فیصد آگے نظر آرہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ صدر مشی گن ریاست پر اتنا توجہ کیوں دے رہے ہیں۔شاید ان کی ایگزٹ پول کے مطابق وہاں جوئی تھوڑی سیٹوں کے مقابلے جیت رہے ہوں گے۔لیکن یہ ایک ایسی ریاست ہے جس نے چار سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے میں کلیدی رول ادا کیا تھا، کیونکہ سروے میں ہلیری کلنٹن کو 2016 کے انتخابات سے بالکل پہلے ہی جیتتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لئے آج ووٹنگ جاری ہے ۔وہیں اس بار تقریباً نو کروڑ سے زائد ووٹ پہلے ہی این پرسن اور پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعہ ڈالے گئے ہیں۔امریکہ دہائیوں میں سب سے زیادہ ووٹرز کے حق رائے دہی کے استعمال کو دیکھنے کے لیے مکمل طور سے تیار ہے۔لیکن ساتھ میں یہ تلخ اور متعدد الزامات سے بھرپور انتخابی مہم رہی ہے۔جس کی وجہ سے متعدد تنظیموں اور بین الاقوامی کرائسس گروپ نے تشدد ہونے کے خدشات ظاہر کیے ہیں۔

امریکہ صدارتی انتخابات

وائٹ ہاؤس کے بیورو چیف برائے وائس آف امریکہ کے ترجمان اسٹیون ہرمین نے کہا کہ اس انتخابات کو لے کر تناؤ اور اضطراب پایا جارہا ہے خاص طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کے ووٹروں یا آزاد امیدواروں کے درمیان، جو جوبائیڈن کی حمایت کر رہے ہیں، حتی کہ کچھ ریپبلکن میں بھی، جو ٹرمپ کے حریف کی حمایت میں سامنے آئے ہیں ان میں بھی یہ ڈر نظر آرہا ہے۔

اسٹیون ہرمین نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر مشیگن جیسی ریاستوں میں بھی خدشات پائے جارہے ہیں کہ لوگوں کے پاس بندوق ہوسکتے ہیں یا انہیں ڈرایا جاسکتا ہے اور اس طرح کا عمل خوفناک تاثرات قائم کرسکتا ہے۔

لیکن واقعی میں اس بات میں زیادہ کوئی سچائی نہیں ہے کہ لوگوں کے باہر جانے اور ووٹ دینے کے جوش و جذبے کو اس سے کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ واقعی میں کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ہورہا ہے، جس نے لوگوں میں ہچکچاہٹ پیدا کردی ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ لوگوں نے پہلے ہی بیلٹ پیپر کے ذریعہ ووٹ دینا مناسب سمجھا۔

وہیں رپورٹ کے مطابق اس اہم انتخابات سےقبل حفاظتی نقطہ نظر سے ناقابل تسخیر بنانے کے لیے وائٹ ہاؤس کے اطراف میں باڑ لگائی جارہی ہے۔ساتھ میں واشٹنگٹن ڈی سی کی نجی تجارتی عمارتوں میں بھی باڑ لگائیں گئے ہیں تاکہ انہیں کسی بھی نقصان سے محفوظ کیا جاسکے۔سینئر صحافی سمیتا شرما سے بات چیت کے دوران ہرمین نے مزید کہا کہ ہمیں ایک تشویش لاحق ہے کہ شاید کچھ معاملے منگل کی رات کو نہیں بدھ کی رات کو پیش آسکتے ہیں، جب ہمارے پاس انتخابات کے حوالے سے واضح تصویر سامنےآجائیگی کہ کیا ہونے والا ہے۔لوگ سڑک پر نکل سکتے ہیں اور صرف چند لوگ ہی تشدد کرسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے پچھلے مظاہروں مین دیکھا ہے کیونکہ یہ بائیں اور دائیں محاذ دونوں لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

ہرمین نے مزید بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ مظاہروں کے دوران واشنگٹن ڈی سی کی سڑکوں اور وائٹ ہاؤس کی اطراف میں کھڑکیوں کو توڑنے اور آگ لگانے جیسے کئی طرح کے تشدد کے عمل، جیسا کہ ہم نے رواں برس کے مظاہروں میں دیکھا ہے، کو روکنے کے لیے بہت سارے اقدامات اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس بار بھی احتیاطی تدابیر اخیتار کی جارہی ہے۔ لیکن اس بار یہ امکان نہیں نظر آرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی طرح کی بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے کو ملے گا۔لیکن اگر کہیں بھی کسی طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس پر توجہ دی جائیگی۔ بہت کچھ انتخابی نتائج پر منحصر ہے۔

کئی سالوں سے امریکی انتخابات اور سیاست کو قریب سے دیکھنے والے ہرمن نے کہا کہ نتائج اس بات پر منحصر ہوں گے کہ پولنگ کتنی درست رہی ہے۔ اگر جوئی بیڈن پنسلوانیہ کے بغیر270 سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ڈرامہ زیادہ نہیں ہوگا۔اگرچہ صدر ٹرمپ نے اس جانب اشارہ دیا ہےکہ وہ نتائج کو چیلنج دینے کے لیے فوری طور پر عدالت کا رخ کرسکتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انتخابات کے دن ہی شام کو نتائج جاری کردیے جانے چاہیے۔

انتخابی نتائج کی واضح تصویر 4 نومبر کی صبح امریکی وقت کےمطابق سامنے آئیگی۔لیکن دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ کیا یہ سنہ 2000 میں جیورج بش اور اے گور کے درمیان ہونے والے کانٹے کی ٹکر جیسا مقابلہ ہوگا۔

ابھی تک جوئی بیڈن کو اس انتخابات میں ایک مستقل برتری حاصل ہے، جو انتخابی مہم کے آخری چند دنوں میں ایک ہندسے تک محدود ہوگئی ہے۔لیکن سیاسی پنڈت اور سروے کرنے والی ایجنسیاں اس بات سے فکرمند ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سنہ 2016 کا سایہ اس پر بھی پڑ جائے۔واضح رہے کہ سنہ 2016 میں ہیری کلنٹن کی جیت کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔جو سیٹیں ٹرمپ نے چار سال قبل کلنٹن سے جیتی تھی، اس بار بھی ٹرمپ ان سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکتےہیں۔انتخابی نتائج سامنے آنے سے پہلے دونوں امیدوار سوئنگ اسٹیٹس پر فوکس کر رہےہیں۔(سوئنگ اسٹیٹس میں دونوں جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتی ہیں۔ سوئنگ اسٹیٹس کا تعین سابقہ الیکشن میں مارجن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔جن ریاستوں میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے وہ سوئنگ اسٹیٹس تصور کی جاتی ہیں۔)

ہرمین نے کہا کہ چاہے بائیڈن کو ایگزٹ پول میں سات سے 4 فیصد آگے دکھایا گیا ہو، لیکن کچھ ریاست وہ زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہوں اور اسی جگہ پر امیدوار اپنی زیادہ توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ظاہری طور پر ٹرمپ فلوریڈا سے جیت حاصل کرتے ہوئے نظر آرہےہیں۔بائیڈن کے لئے فتح کا یہ ایک راستہ ہے اگر وہ فلوریڈا میں جیت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔دونوں امیدواروں کے لیے پنسلوانیا اقتدار حاصل کرنے کی ایک چابی ہے۔پیر کے صدر نے پانچ میں سے دو خطاب مشی گن ریاست میں کی، حالانکہ بیڈن اس سیٹ سے ٹرمپ کے مقابلے 10 فیصد آگے نظر آرہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ صدر مشی گن ریاست پر اتنا توجہ کیوں دے رہے ہیں۔شاید ان کی ایگزٹ پول کے مطابق وہاں جوئی تھوڑی سیٹوں کے مقابلے جیت رہے ہوں گے۔لیکن یہ ایک ایسی ریاست ہے جس نے چار سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے میں کلیدی رول ادا کیا تھا، کیونکہ سروے میں ہلیری کلنٹن کو 2016 کے انتخابات سے بالکل پہلے ہی جیتتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔

Last Updated : Nov 3, 2020, 2:48 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.