امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے جمعرات کو کہا کہ امریکہ کابل میں سفارت خانے سے کچھ اہلکاروں کو نکالنے میں مدد کے لیے افغانستان میں اضافی 3 ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ منصوبہ بند انخلاء کے باوجود سفارت خانہ کھلا رہے گا۔ پرائس نے نامہ نگاروں کو بتایا "ہم سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر کابل میں اپنے شہریوں کے نکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے بعد میں اس کی تصدیق کی کہ امریکہ سفارت خانے کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ افغان امریکی خصوصی امیگرنٹ ویزا (ایس آئی وی) کے درخواست گزاروں کے انخلا میں مدد کے لیے 3 ہزار فوجی بھیجے گا۔
تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی زیادہ دیر تک افغانستان میں نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ ایک عارضی مشن ہے جس میں ایک خاص مقصد پر کام کیا جائے گا"۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ امریکی افواج پر اگر حملہ ہوتا ہے تو اس کا جواب دیا جائے گا۔
یہ اقدام بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دارالحکومت کابل میں سفارتی تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کا فقدان ہے کیونکہ طالبان نے جارحانہ کارروائی کرتے ہوئے حالیہ دنوں میں اہم شہروں کو تیزی سے فتح کیا ہے۔
مزید پڑھیں:
طالبان کی بڑھتی پیش قدمی، افغان حکومت کی اقتدار میں شراکت کی پیشکش
اشرف غنی سلامتی امور پر مذاکرات کے لئے مزار شریف پہنچے
اس کے علاوہ برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس نے اعلان کیا کہ برطانیہ کے 600 فوجیوں کو افغانستان بھیجا جائے گا تاکہ وہ برطانوی شہریوں کو بحفاظت ملک چھوڑنے میں مدد کریں۔ یہ اقدام افغانستان میں طالبان کی کارروائی کے دوران کیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ حیران ہیں کہ جس رفتار سے دہشت گرد تنظیم ملک کے صوبوں پر قبضہ کر رہی ہے۔
طالبان نے جمعرات کو دعویٰ کیا ہے کہ ملک سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے دوران افغانستان کے تیسرے بڑے شہر ہرات پر قبضہ کر لیا ہے۔
اس سے قبل آج طالبان نے ملک کے 12 صوبائی شہر باغدیس پر قبضہ کر لیا جو طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ دریں اثنا اشرف غنی کی زیرقیادت افغان حکومت نے جمعرات کے روز جنگ زدہ ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کے لیے طالبان کو حکومت میں شراکت دینے کی پیشکش کی ہے۔