صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال فروری کے مہینے میں کورونا وائرس کے بارے میں اپنے ’سنہری الفاظ‘ کچھ اس طرح سے کہے تھے: ’’یہ غائب ہوگا ۔۔۔ ایک دن ۔۔۔ یہ ایک معجزے کی طرح ہے ۔۔۔ یہ غائب ہوجائے گا۔‘‘
انہوں نے وبا کے بہانے اپنا یہ منصوبہ بھی پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ ’’(صدارتی) انتخابات میں اُس وقت تک تاخیر کی جائے جب تک لوگ ٹھیک طرح سے اور محفوظ طریقے سے ووٹ ڈالنے کے متحمل نہ ہوجائیں۔‘‘
اُنہوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کے خلاف پروپگنڈا کرتے ہوئے کہا کہ یہ در اصل اُنہیں انتخابی نقصان پہنچانے کی ایک سازش ہے۔
نومبر 2020 میں منعقد کئے گئے امریکی صدارتی انتخابات میں ملک کی انتخابی تاریخ میں سب سے زیادہ رائے دہندگان نے حصہ لیا۔ جوں ہی ٹرمپ کو اندازہ ہونے لگا کہ بعض حساس امریکی ریاستوں میں ڈیموکریٹس کے حق میں زیادہ ووٹ پڑے ہیں تو اُنہوں نے اپنی زبان چلانا شروع کردی۔ وائٹ ہاوس کے اس مکین نے آسانی سے اقتدار کی منتقلی میں روڈے اٹکانے کی بھر پور کوشش کی۔ اُنہوں نے اپنے بدترین منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش اُس وقت کی جب امریکی کانگریس کے دونوں ایوان میں ایلیکٹورل کالج ووٹوں کے بارے میں حتمی فیصلہ لیا جارہا تھا۔ اُنہوں نے کیپٹل ہل میں نائب صدر مائیک پینس کی جانب سے انتخابی رسوم کی ادائیگی میں روڈے اٹکانے کےلئے ہجوم کو اس پر دھاوا بول کے لئے اُکسایا۔
جب ہجوم نے عمارت، جسے عمومی طور پر جمہوریت کا مندر پکارا جاتا ہے، پر یلغار کی تو وہاں موجود معزز اراکین اپنی زندگیاں بچانے کے لئے بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں چار حملہ آور مارے گئے۔ یہ سارا واقعہ ٹرمپ کی جانب سے اُن کے حامیوں میں نفرت کا زہر گھول دینے اور اُنہیں اکسانے کی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ امریکا کے جمہوری اقدار کے خلاف ٹرمپ کی جانب سے کیا گیا ایک دہشت گردانہ حملہ ہے۔ نسل پرستی کے رجحانات کے حامل ٹرمپ نے دائیں بازو کے طرفدار ہجوم کو اکساتے ہوئے بیرونی دُنیا پر اپنی آمرانہ طاقت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ طاقت کے وحشیانہ استعمال سے وائٹ ہاؤس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ٹرمپ نے دُنیا کی قدیم ترین جمہوریت کی کھلی اُڑا دی۔
ٹرمپ نے بالاخر عہدہ چھوڑنے اور آسانی کے ساتھ اقتدار کی منتقلی کی حامی اُس وقت بھری جب ریپبلیکن نے حتمی انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کا ساتھ دینے سے انکار کیا، باوجود اسکے کہ کیپٹل ہل کا محاصرہ کیا گیا تھا۔ ٹرمپ امریکا کے صدارتی عہدے پر ایک لمحے کےلئے بھی فائز رہنے کا حق کھو چکے ہیں۔
جارج واشنگٹن نے 225 سال قبل متنبہ کیا تھا کہ اگر سیاسی جماعتیں تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ الجھتی رہیں تو جمہوریت غیر مستحکم ہو جائے گی اور افراتفری مچ جائے گی۔ اُنہوں نے یہ بھی متنبہ کیا تھا کہ اس طرح کی صورتحال میں خود غرض لیڈران سامنے آکر اپنے خود غرضانہ مفادات کی تکمیل کے لئے اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔
باوجود اس کے کہ امریکا ایک سپر پاور ہے اور اس کے آئین میں شہریوں کو آزادی اور برابری کا حق حاصل ہے، یہاں بڑھتی ہوئی بے چینی نے سماجی عدام مساوات کو اجاگر کردیا ہے۔ سیاہ فام لیڈر بارک اوبامہ کے صدارتی عہدے پر دو بار معیاد مکمل کرنے کے بعد ٹرمپ نے نفرت اور نسل پرستانہ جذبات کو ابھارتے ہوئے پچھلے انتخابات واضح اکثریت سے جیت لئے۔ اس طرح سے ٹرمپ کی مہم نے جارج واشنگٹن کی پیش گوئی صحیح ثابت کی۔ ٹرمپ نے اکونومسٹ کے سروے نتائج کو درست ثابت کیا، جس میں لوگوں نے یہ رائے دی تھی کہ اُن کا انتخاب دس عالمی خطرات میں سے ایک ہے۔
’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اقتدار میں آنے والے ٹرمپ نے نہ صرف امریکی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر بھی زیادتیاں کیں۔ کیپٹل ہل پر حملہ کروانا اُن کی تمام حرکتوں میں سے سب سے بھری حرکت ہے۔
مزید پڑھیں:
کیپٹل ہل تشدد کے لیے جانسن نے ٹرمپ کی مذمت کی
ٹرمپ سال 2024 کے انتخابات کی تیاریاں یہ کہہ کر کر رہے ہیں کہ اصل جنگ اب شروع ہوئی ہے۔ ٹرمپ کو نہ صرف فوری طور پر صدارتی دفتر سے نکال باہر کیا جانا چاہیے بلکہ مستقبل میں اُن کے انتخاب لڑنے پر بھی پابندی لگائی جانی چاہیے۔ ڈیموکریٹس نے نہ صرف صدارتی عہدہ حاصل کیا ہے بلکہ اُنہیں امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں برتری حاصل ہوگئی ہے۔ نسل پرستی، جس نے امریکی سماج میں مضبوطی کے ساتھ جڑیں پکڑ لی ہیں، کو اکھاڑ پھینکنا ڈیموکریٹس کی اولین ذمہ داری ہے۔