جو بائیڈن کے 46ویں امریکی صدر منتخب ہوجانے پر جوش و خروش عروج پر ہے۔ 49ویں صدارتی انتخابات بلا شبہ کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔
سنہ 1992ء کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے جس میں کسی بر سراقتدار صدر نے اپنی دوسری معیاد کے لئے ہونے والے انتخاب میں شکست کھائی ہو۔
بائیڈن نے 75 ملین سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ یہ اب تک کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے حق میں پڑنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔
اس سے قبل سنہ 2008ء کے الیکشن میں براک اوبامہ کو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔ اُنہیں 69.5 ملین ووٹ ملے تھے۔
حالیہ امریکی انتخابات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ڈاک کے ذریعے اپنے حق رائے دیہی کا استعمال کیا۔ کیوں کہ کووِڈ-19 کے باعث امریکہ کی کئی ریاستوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے پر عائد پابندی ہٹا دی۔
کئی امریکی ریاستوں میں ووٹ شماری کے عمل میں وقت لگا۔ نتیجے کے طور پر انتخابات کے بعد چار دن تک یعنی7 نومبر 2020 ء تک حتمی انتخابی نتائج کا اعلان نہیں کیا جاسکا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جوزف آر بائیڈن کی ساتھی کملا ہیرس امریکہ کی نائب صدر کے بطور منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔
لیکن کئی طرح کی خوبیوں کے باوجود یہ انتخابات اس قدر فیصلہ کن ثابت نہیں ہوئے، جیسا کہ بعض مبصرین نے ان سے متعلق پیشگی دعویٰ کیا تھا۔ یہ ایک خوشگوار یادگار ہوگی کہ موجودہ صدر 70 ملین سے زائد ووٹ حاصل کرچکے ہیں۔
اس سے پہلے صدر بارک اوبامہ کو ہی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ ان انتخابات میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے حامیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
اس کا اندازہ سنہ 2016ء اور 2020ء کے انتخابات میں ٹرمپ کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی شرح کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
سنہ 2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ کو 62,984,828 ووٹ حاصل ہوئے تھے، جو مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوں کا لگ بھگ 46فیصد تھا۔
اس بار یعنی 2020ء کے انتخابات میں اُنہیں 71,098,559 ووٹ ملے، جو مجموعی طور پر ڈالے ووٹوں کا لگ بھگ 48 فیصد ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ ڈونالڈ جے ٹرمپ کی جانب سے 59 ویں صدارتی انتخابات ہارنے کے باوجود اُن کے طریقہ کار (ٹرمپ ازم) کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ڈیموکریٹس کی عظیم فتح قابل فہم ہے۔ تاہم ریپلیکن کو امریکی سینیٹ میں 48 سیٹیں حاصل ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس سینیٹ میں 46 نشستیں ہیں۔
دو سیٹیں آزاد نمائندوں کی ہیں۔ کسی بھی پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت کا درجہ پانے کےلئے کل 51 نشستیں چاہیں۔
اب سینیٹ میں اکثریت کا انحصار جارجیا میں سینیٹ کی دو نشستوں کے لئے ہونے والے انتخابات پر ہوگا۔
ءجارجیا میں سینیٹ کی پولنگ کے پہلے مرحلے پر دونوں پارٹیوں میں سے کسی کوئی بھی پچاس فیصد ووٹ حاصل نہیں ہوئے ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے اپنے حریف کو دی جانے والی کانٹے کی ٹکر کے حوالے مبصرین کا کہنا یہ ٹرمپ کی پر جوش مہم کا نتیجہ ہے۔
ٹرمپ کی اس کامیابی کا پس پردہ محرک وہ عوامی حمایت ہے، جو ٹرمپ کو اُن کے نظریات کی وجہ سے حاصل ہے۔
اُن کے اِن نظریات کی جڑیں در اصل امریکہ کی سیاسی اساس میں پیوستہ ہیں۔
ٹرمپ کی حمایت میں قدامت پسند یک جٹ ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نطریات ٹرمپ کی اپنی پیداوار تو نہیں ہیں۔ لیکن وہ مین سٹریم سیاست میں ان نظریات کے عملبردار ضرور ہیں۔
امریکی معاشرے میں قدامت پسندوں کی موجودگی دراصل تنظیموں اور گروہوں کی صورت میں ہے۔حالانکہ ان تنظیموں اور گروپوں کے درمیان آپسی روابط نہیں ہیں۔
ان سب کے اپنے اپنے تنظیمی قواعد و ضوابط ہیں لیکن اس کے باوجود وہ متذکرہ آئیڈیالوجی (ٹرمپ کی آئیڈیالوجی) کی حمایت میں ایک دوسرے کے ہم خیال ہیں۔ حالانکہ وہ تنظیمی ڈھانچوں یا قیادت کے حوالے سے منظم نہیں ہیں۔
اس ضمن میں سخت گیر قدامت پسند گروپ کیو انون کی مثال دی جاسکتی ہے۔
سفید فامز کی برتری پر یقین رکھنے والے اس طرح کے گروپس قدامت پسندی کی انتہا پر ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو اپنے نظریات کو لیکر چوری چھپے متحرک ہیں۔
اسی طرح معاشرے میں سخت گیر جنگجو بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ متذکرہ نطریات کے حامل ریڈیو ٹاک شوز، کیبل نیوز اور بریٹ بارٹ نیوز جیسی ویب سائٹس بھی موجود ہیں۔
یہ سب انتہائی قدامت پسند ہیں۔ بریٹ بارٹ نیوز کی ویب سائٹ سے قدامت پسند آئیڈیالوجی کے حامل گروپس وابستہ ہیں۔
قدامت پسند گروپس کی گرینڈ اولڈ پارٹی (یعنی ریپبلیکن پارٹی) کے ساتھ وابستگی کو موثر بنانے میں ٹرمپ نے اپنا کردار نبھایا ہے۔
یہی وہ قوت ہے، جس کی بدولت ٹرمپ کا ریپبلیکن پارٹی کے اندر بھی ایک مضبوط پکڑ ہے۔ ٹرمپ اور اس کے قابل بھروسہ ساتھیوں کی پارٹی پر گرفت ہے اور اس وجہ سے ری پلیکن پارٹی کی جانب سے ڈیموکریٹس اور دیگر مخالفین کے ساتھ طاقت آزمائی جاری رکھے جانے کا قوی امکان ہے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ فیصلہ کن سیاست ہے، جو ٹرمپ کے صدارتی دور میں عروج پر رہی۔ یہ سیاست ٹرمپ کی ہار کے باوجود منطر نامے پر موجود رہے گی۔
دونوں یعنی ری پبلیکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر واضح فالٹ لائنز پیدا ہوچکی ہیں۔
ری پبلیکن پارٹی میں رائٹ ونگ اپنے انتہا پر ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی میں لیفٹ ونگ کے لوگ انتہا پر ہیں۔
سنہ 2016ء یعنی جب سے 58 ویں صدارتی انتخابات ہوئے ہیں، دونوں پارٹیوں ری پلیکن اور ڈیموکریٹس کو ان کے اندر موجود سخت گیر عناصر سے خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر لیفٹ نظریات کے حامل عناصر کا شدید دباو ہے۔
بیرین سینڈرز اور دی سکاڈ ڈیموکریٹس (چار خواتین پر مشتمل گروپ، جسے سال 2018ء میں امریکا کے ہاوس آف ری پریزنٹیٹیوز کے لئے منتخب ہوا ہے) اس گروپ نے پہلے ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر مرکزی قیادت پر حاوی ہونے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوئے، پارٹی کو ایک چیلنج سے دوچار کردیا ہے۔ یہ گروپ پولیس، طبی اور تعلیمی شعبوں میں اصلاحات وغیرہ کےلئے دباو بنائے ہوئے ہے۔
اُدھر ریپلیکن پارٹی میں بھی پہلے ہی قدامت پسندی کی انتہا پر موجود لوگ حاوی ہیں۔
اس پارٹی کے اندر ٹرمپ اور سٹیفن کیون بینون کی لیڈرشپ کا بڑھتا ہوا دباو ہے۔
ابراہیم لنکن کی اس پارٹی کے عہدوں پر قدامت پسندوں کا نرغہ ہے،جو امریکا میں سیاست کے نظریات بدل رہے ہیں۔
دونوں پارٹیوں کے عہدیدار درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں نااہلیت ثابت ہوئے ہیں۔
ڈیموکرٹیس نے 58 ویں صدارتی انتخاب جیتنے والوں کے جبڑے سے کامیابی چھین لی ہے۔
ٹرمپ کی انتخابی شکست میں قدامت پسندوں کا بھی کچھ حد تک رول ہے، جو بعض ریاستوں میں سینیٹ اور صدر کے عہدے کے لئے پڑنے والے ووٹوں کے رجحان کو دیکھ کر صاف ظاہر ہوا۔
امریکی ریاستوں آریزونا میں بیدن کی جیت کا سبب ریپلیکن حمایتی جان میک کین اور مٹ رومنی ہیں۔
بڑھتا ہوا چیلنج یہ ہے کہ ایک جانب ڈیموکریٹک پارٹی اصلاحات کےلئے لیفٹ ونگ کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے اور دوسری جانب ریپبلیکن پارٹی میں قدامت پسندوں نے تہذیبی جنگ کی سیاست چھیڑ رکھی ہے۔
بائیڈن کی صاف گوئی کے باوجود امریکا کی داخلی سیاست میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تناو کے اس دور میں بھی غیر معمولی پولنگ شرح ہوئی ہے، یہ بات بذات خود ایک ایسا عندیہ ہے، جسے بائیڈن انتظامیہ نظر انداز کر ہی نہیں سکتی ہے۔ یعنی وہ اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اُنہیں ووٹ دیئے ہیں۔
تاہم بائیڈن کی جانب سے اہم معاملات کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کے منفی نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
خواہ یہ اُن کی جانب سے کووِڈ19 سے متعلق طبی شعبے سے جڑے بعض حساس اقدامات ہوں یا پھر پولیس ریفارمز کا مسئلہ ہو۔
پولیس ریفارمز کا معاملہ اس لئے بھی حساس ہے کیونکہ غیر سفید فاموں کے خلاف پولیس کی بے جا کارروائیوں پر ناراضگی برقرار ہے۔
اسی طرح امیگریشن سے متعلق قوانین میں نرمی جیسے مسائل پر بائیڈن انتطامیہ کی کارروائی بھی حساس ہے۔
ان مسائل پر بائیڈن انتظامیہ کے فیصلہ کن اقدامات کے نتیجے میں سڑکوں پر تشدد بپا ہوجانے کا احتمال ہے۔
امریکہ کے بانیوں نے اس ملک کے بارے میں تصور کیا تھا کہ یہ ایک آزاد اور چمکتا ہوا ملک ہوگا لیکن موجود حالات میں یہ ملک اس گھر کی مانند ہوگیا ہے، جس میں آگ لگی ہو۔
کیا یہ ساری صورتحال ہمارے لئے باعث پریشانی ہونی چاہیے؟ منقسم امریکی معاشرے کے منفی اثرات یہاں کے کثیر الجہتی اداروں پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔
سب سے اہم یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے، جب چین میں عالمی قوت بننے کی صلاحیت ہے۔