ETV Bharat / international

امریکی انخلا میں دخل نہ دینے کی طالبان کی یقین دہانی

29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہوئے معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ 14 ماہ کے دوران امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ دیگر امریکی اور امریکی معاونین کو بھی افغانستان سے بحفاظت نکالا جائے گا۔

us
us
author img

By

Published : Aug 21, 2021, 1:08 PM IST

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ طالبان نے امریکہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ لوگوں کو کابل ایئرپورٹ پہنچنے سے نہیں روکیں گے اور نہ ہی انخلا کی امریکی مہم میں کوئی دخل دے گا۔

پرائس نے جمعہ کے روز پریس بریفنگ میں کہا کہ ’طالبان نے ہمیں وہی کہا ہے جو انہوں نے عوامی طور پر کہا تھا کہ ان کا ہمارے آپریشن اور راستے میں ان لوگوں کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جو ایئرپورٹ پہنچنا چاہتے ہیں۔'

اس دوران کابل ایئر پورٹ اور اس کے باہر بہت بھیڑ ہے۔ لوگ ملک چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جن لوگوں نے بھی گزشتہ 20 برسوں میں طالبان کے خلاف امریکی حمایت کی تھی انہیں طالبان کا خوف ہے کہ وہ اس کا بدلہ ضرور لیں گے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کو وہاں سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے، جنہیں طالبان سے خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ 29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہوئے معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ 14 ماہ کے دوران امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ دیگر امریکی اور امریکی معاونین کو بھی افغانستان سے بحفاظت نکالا جائے گا۔

واضح رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پائی جاتی ہے اور خصوصاً اقلیتیں اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

اس دوران طالبان نے خواتین کے حوالے سے اپنے موقف میں نرمی کا عندیہ دیا تھا۔ طالبان نے اشارہ کیا کہ خواتین کو مکمل ڈھانپنے والا برقع پہننے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ انہیں صرف حجاب پہننا ہے۔ طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں نے اشارہ دیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم یا ملازمت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگرچہ طالبان نے اس بار نرم موقف اپنانے کا عندیہ دیا ہے لیکن لوگ یقین نہیں کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Taliban Viral Video: فتح کے بعد طالبان ارکان کا تفریحی ویڈیو وائرل

گزشتہ روز طالبان نے تمام سرکاری ملازمین سے عام معافی (General amnesty) دیتے ہوئے کام پر واپس آنے کی اپیل کی تھی۔ طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی شروع کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کے ذہن میں 1996 سے 2001 کی حکمرانی کے دوران زنا کے معاملے میں کوڑے مارنے، اسٹیڈیم، چوک چوراہوں پر پھانسی دینے اور سنگسار کرنے کی یادیں محفوظ ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ طالبان نے امریکہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ لوگوں کو کابل ایئرپورٹ پہنچنے سے نہیں روکیں گے اور نہ ہی انخلا کی امریکی مہم میں کوئی دخل دے گا۔

پرائس نے جمعہ کے روز پریس بریفنگ میں کہا کہ ’طالبان نے ہمیں وہی کہا ہے جو انہوں نے عوامی طور پر کہا تھا کہ ان کا ہمارے آپریشن اور راستے میں ان لوگوں کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جو ایئرپورٹ پہنچنا چاہتے ہیں۔'

اس دوران کابل ایئر پورٹ اور اس کے باہر بہت بھیڑ ہے۔ لوگ ملک چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جن لوگوں نے بھی گزشتہ 20 برسوں میں طالبان کے خلاف امریکی حمایت کی تھی انہیں طالبان کا خوف ہے کہ وہ اس کا بدلہ ضرور لیں گے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کو وہاں سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے، جنہیں طالبان سے خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ 29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہوئے معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ 14 ماہ کے دوران امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ دیگر امریکی اور امریکی معاونین کو بھی افغانستان سے بحفاظت نکالا جائے گا۔

واضح رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پائی جاتی ہے اور خصوصاً اقلیتیں اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

اس دوران طالبان نے خواتین کے حوالے سے اپنے موقف میں نرمی کا عندیہ دیا تھا۔ طالبان نے اشارہ کیا کہ خواتین کو مکمل ڈھانپنے والا برقع پہننے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ انہیں صرف حجاب پہننا ہے۔ طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں نے اشارہ دیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم یا ملازمت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگرچہ طالبان نے اس بار نرم موقف اپنانے کا عندیہ دیا ہے لیکن لوگ یقین نہیں کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Taliban Viral Video: فتح کے بعد طالبان ارکان کا تفریحی ویڈیو وائرل

گزشتہ روز طالبان نے تمام سرکاری ملازمین سے عام معافی (General amnesty) دیتے ہوئے کام پر واپس آنے کی اپیل کی تھی۔ طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی شروع کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کے ذہن میں 1996 سے 2001 کی حکمرانی کے دوران زنا کے معاملے میں کوڑے مارنے، اسٹیڈیم، چوک چوراہوں پر پھانسی دینے اور سنگسار کرنے کی یادیں محفوظ ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.