مملکت سعودی عرب کے فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا ہے کہ 'سعودی عرب مسئلۂ فلسطین کے منصفانہ اور مستقل حل کے حصول کے لئے پرعزم ہے'۔
شاہ سلمان نے کہا ہے کہ 'یہ 2002 کے عرب امن اقدام کا نقطہ آغاز ہے'۔
شاہ سلمان نے ٹرمپ کو بتایا کہ 'وہ قیام امن کے لئے امریکی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ سعودی عرب اپنے عرب امن اقدام کی بنیاد پر مسئلۂ فلسطینی کا جلد سے جلد حل چاہتا ہے'۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور اسرائیل کے درمیان امریکہ کی جانب سے ثالثی کردار کے بعد 'امن معاہدہ' کے تحت یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد شاہ سلمان نے اسی سلسلے میں ٹرمپ سے گفتگو کی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ متحدہ عرب امارات، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا مصر اور اردن کے بعد تیسری عرب ریاست بن گیا ہے۔
تاہم رواں ماہ مملکت سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین پروازوں کو اس کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔
اس ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ٹرمپ نے شاہ سلمان سے کہا کہ 'وہ اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ دونوں نے علاقائی سلامتی پر بھی تبادلہ خیال کیا'۔
تاحال کسی بھی دوسری عرب ملک نے یہ نہیں کہا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کی طرح اسرائیل سے تعلقات استوار کریں گے۔ اس کے برعکس کئی دہائیاں قبل مصر اور اردن کے درمیان اسرائیلی تعلقات معمول پر آئے تھے۔
شاہ سلمان کے بیٹے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہاؤس کے مشیر جیریڈ کشنر نے گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے دورے کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں سے متعلق مذاکرات کا دوبارہ آغاز اور دیرپا امن کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے بعد فلسطینیوں نے زبردست مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل 'پیٹھ میں چھرا گھونپنے' کے مترادف ہے۔
امن معاہدہ کے بعد حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ اور ایران کی حمایت یافتہ شیعہ حزب اللہ تحریک کے سربراہ حسن نصراللہ نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔