افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے اور نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد امریکی مذاکرات زلمے خلیل زاد نے کہا کہ اگر سابق صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر نہیں جاتے تو طالبان کو کابل میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔
امریکی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے اچانک چلے جانے نے ایک معاہدہ ناکام بنادیا جس کے تحت طالبان کو کابل میں داخلے سے روکا جاتا اور سیاسی منتقلی پر بات چیت کی جاتی۔
ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 20 سال سے مغرب کی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت کے ختم ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ باغی، دارالحکومت کے باہر 2 ہفتوں تک رکنے اور مستقبل کی حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دینے پر رضامند تھے۔
امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’حتیٰ کے آخر میں بھی ہمارا طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تھا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے‘۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لیکن 15 اگست کو اشرف غنی فرار ہوگئے اور طالبان نے چیف آف کمانڈ جنرل فرینک میکینزی کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اجلاس میں پوچھا کہ چونکہ حکومت ختم ہوگئی ہے تو کیا امریکی افواج کابل کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گی'۔ امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ ’اور پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا، ہم یہ ذمہ داری نہیں لینے والے تھے‘۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ امریکی فوجی صرف امریکی شہری اور افغان اتحادیوں کو نکالنے کے لیے کام کریں گے اور امریکہ کی طویل ترین جنگ کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے۔
دوسری جانب زلمے خلیل زاد کے ریمارکس کے بارے میں سوال پوچھنے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ کابل میں ’ایک لمحے تک‘ ٹھہرنا کوئی آپشن نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ٹھہرنے کے لیے کبھی کوئی حقیقت پسندانہ، قابل عمل اور عملی آپشن نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ملا عبدالغنی برادر ٹائمز میگزین کی 100 بااثر شخصیات میں شامل
انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت واضح تاثر دیا گیا کہ اگر امریکہ نے زمین پر ہماری موجودگی کو طول دینا چاہا تو ہمارے فوجی پھر طالبان کے تشدد کا نشانہ بنیں گے، یہاں انہوں نے داعش جیسے گروہوں کے دہشت گرد حملوں کا ذکر نہیں کیا۔
(یو این آئی)