ETV Bharat / international

شراکت اقتدار کا معاہدہ اشرف غنی کے اچانک فرار ہونے سے ناکام: زلمے خلیل زاد

امریکی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے اچانک چلے جانے نے ایک معاہدہ ناکام بنادیا جس کے تحت طالبان کو کابل میں داخلے سے روکا جاتا اور سیاسی منتقلی پر بات چیت کی جاتی۔

Zalmay Khalilzad
Zalmay Khalilzad
author img

By

Published : Sep 16, 2021, 7:48 PM IST

Updated : Sep 16, 2021, 8:18 PM IST

افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے اور نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد امریکی مذاکرات زلمے خلیل زاد نے کہا کہ اگر سابق صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر نہیں جاتے تو طالبان کو کابل میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔

امریکی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے اچانک چلے جانے نے ایک معاہدہ ناکام بنادیا جس کے تحت طالبان کو کابل میں داخلے سے روکا جاتا اور سیاسی منتقلی پر بات چیت کی جاتی۔

ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 20 سال سے مغرب کی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت کے ختم ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ باغی، دارالحکومت کے باہر 2 ہفتوں تک رکنے اور مستقبل کی حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دینے پر رضامند تھے۔

امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’حتیٰ کے آخر میں بھی ہمارا طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تھا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے‘۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لیکن 15 اگست کو اشرف غنی فرار ہوگئے اور طالبان نے چیف آف کمانڈ جنرل فرینک میکینزی کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اجلاس میں پوچھا کہ چونکہ حکومت ختم ہوگئی ہے تو کیا امریکی افواج کابل کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گی'۔ امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ ’اور پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا، ہم یہ ذمہ داری نہیں لینے والے تھے‘۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ امریکی فوجی صرف امریکی شہری اور افغان اتحادیوں کو نکالنے کے لیے کام کریں گے اور امریکہ کی طویل ترین جنگ کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے۔

دوسری جانب زلمے خلیل زاد کے ریمارکس کے بارے میں سوال پوچھنے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ کابل میں ’ایک لمحے تک‘ ٹھہرنا کوئی آپشن نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ٹھہرنے کے لیے کبھی کوئی حقیقت پسندانہ، قابل عمل اور عملی آپشن نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ملا عبدالغنی برادر ٹائمز میگزین کی 100 بااثر شخصیات میں شامل

انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت واضح تاثر دیا گیا کہ اگر امریکہ نے زمین پر ہماری موجودگی کو طول دینا چاہا تو ہمارے فوجی پھر طالبان کے تشدد کا نشانہ بنیں گے، یہاں انہوں نے داعش جیسے گروہوں کے دہشت گرد حملوں کا ذکر نہیں کیا۔

(یو این آئی)

افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے اور نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد امریکی مذاکرات زلمے خلیل زاد نے کہا کہ اگر سابق صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر نہیں جاتے تو طالبان کو کابل میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔

امریکی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے اچانک چلے جانے نے ایک معاہدہ ناکام بنادیا جس کے تحت طالبان کو کابل میں داخلے سے روکا جاتا اور سیاسی منتقلی پر بات چیت کی جاتی۔

ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 20 سال سے مغرب کی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت کے ختم ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ باغی، دارالحکومت کے باہر 2 ہفتوں تک رکنے اور مستقبل کی حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دینے پر رضامند تھے۔

امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’حتیٰ کے آخر میں بھی ہمارا طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تھا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے‘۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لیکن 15 اگست کو اشرف غنی فرار ہوگئے اور طالبان نے چیف آف کمانڈ جنرل فرینک میکینزی کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اجلاس میں پوچھا کہ چونکہ حکومت ختم ہوگئی ہے تو کیا امریکی افواج کابل کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گی'۔ امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ ’اور پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا، ہم یہ ذمہ داری نہیں لینے والے تھے‘۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ امریکی فوجی صرف امریکی شہری اور افغان اتحادیوں کو نکالنے کے لیے کام کریں گے اور امریکہ کی طویل ترین جنگ کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے۔

دوسری جانب زلمے خلیل زاد کے ریمارکس کے بارے میں سوال پوچھنے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ کابل میں ’ایک لمحے تک‘ ٹھہرنا کوئی آپشن نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ٹھہرنے کے لیے کبھی کوئی حقیقت پسندانہ، قابل عمل اور عملی آپشن نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ملا عبدالغنی برادر ٹائمز میگزین کی 100 بااثر شخصیات میں شامل

انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت واضح تاثر دیا گیا کہ اگر امریکہ نے زمین پر ہماری موجودگی کو طول دینا چاہا تو ہمارے فوجی پھر طالبان کے تشدد کا نشانہ بنیں گے، یہاں انہوں نے داعش جیسے گروہوں کے دہشت گرد حملوں کا ذکر نہیں کیا۔

(یو این آئی)

Last Updated : Sep 16, 2021, 8:18 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.