ETV Bharat / international

نیویارک ٹائمس نے پہلے صفحے پر کورونا سے ہلاک شدگان کے نام شائع کیے

author img

By

Published : May 24, 2020, 5:35 PM IST

عالمی وبا کووڈ-19 کے بحران میں دنیا کے اہم اخباروں میں ایک امریکہ کے نیویارک ٹائمس نے آج پہلے صفحے پر ملک میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کے نام شائع کیے ہوں تو اس انفیکشن کی خطرناک صورت حال سے خوف آنا لازمی ہے۔

نیویارک ٹائمس نے پہلے صفحے پر شائع کیے کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والوں کے نام
نیویارک ٹائمس نے پہلے صفحے پر شائع کیے کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والوں کے نام

نیویارک ٹائمس نے پہلے صفحے پر نہ تو کسی خبر کی سرخی بنائی اور نہ ہی کوئی اشتہار چھاپا بلکہ پورے صفحے کو کورونا انفیکشن سے ہلاک ہونے والوں کے ناموں سے بھر دیا۔

اخبار نے جو موضوع دیا وہ بھی خوف میں مبتلا کرتا ہے، موضوع ہے’یو ایس ڈیتھ نیئر 100,000،این ان کیلکولیبل لوس‘ (امریکہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً 100,000، ناقابل تلافی نقصان)۔ اس کے بعد نیچے ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیاگیا ہے'دے ور ناٹ سمپلی نیمس ان اے لسٹ، دے ور اس' (یہ صرف فہرست میں شامل نام نہیں، یہ ہم تھے)۔

تازہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی سپر پاور امریکہ میں اس انفیکشن نے سب سے زیادہ قہر برسایا ہے۔امریکہ میں وائرس کے 16 لاکھ 66 ہزار 828 معاملے آچکے ہیں اور 98ہزار 683 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ملک میں 11 لاکھ 21 ہزار 231 افراد اس وائرس سے ٹھیک ہوچکے ہیں جبکہ چار لاکھ 46 ہزار 914 ابھی اس کی زد میں ہیں اور 17 ہزار 133 زندگی اور موت کے درمیان جھول رہےہیں۔

اخبار کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کرکے کسی کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے ذریعہ ملک میں کورونا کی کیا صورت حال ہے،اس کی سنجیدگی کو سامنے رکھنا چاہتا ہے۔

اخبار نے اس کام کے لیے تعزیتی خبروں اور ہلاک شدگان کے نوٹس جمع کیے جس سے ہلاک شدگان کے نام کی فہرست بنائی گئی۔صفحہ اول پر وائرس سے مرنے والوں کے نام کیوں شائع کئے ،اس پر'ٹائمس انسائڈر'میں ایک مضمون بھی لکھا ہے۔اصل میں اخبار کے مدیران نے اس خطرناک صورت حال کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔اسسٹنٹ ایڈیٹر گرافکس سیمون لینڈن نے لکھا کہ وہ تعداد کو اس شکل میں سب کے سامنے لانا چاہتی تھیں ،جس سے لوگوں کو یہ پتہ چلے کہ کتنی بڑی تعداد میں وائرس نے جان لی ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہو کہ کس طبقے کے لوگوں کی جان کا یہ انفیکشن دشمن بنا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ سبھی محکمے کے صحافی اس وبا کو رپورٹ کررہے ہیں۔سیمون کا کہنا ہے کہ 'ہم جانتے تھے کہ ہم میل کا پتھر کھڑا کرنے جارہے ہیں اور یہ سمجھ تھی کہ تعداد کو رکھنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے'۔

انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ ڈاٹ یا اسٹک فیگر پیج پر لگانےسے آپ کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون لوگ تھے اور وہ ہمارے لئے کیا معنی رکھتے تھے۔

ایک ریسرچر ایلن نے کووڈ-19 سے متاثرین کی تعزیتی خبر اور ڈیتھ نوٹس جمع کئے جو الگ الگ اخبارات میں شائع ہوئےتھے۔ اس کے بعد نیوز روم میں ایڈیٹروں نے صحافت سے حال میں گریجویٹ ہوئے تین طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر کام کیا اور فہرست تیار کی۔

چیف کریئٹو افسر ٹام باڈکن نے کہا کہ جدید دور میں یہ یقینی طورپر اپنی طرح کا پہلا کام ہے۔

نیویارک ٹائمس نے پہلے صفحے پر نہ تو کسی خبر کی سرخی بنائی اور نہ ہی کوئی اشتہار چھاپا بلکہ پورے صفحے کو کورونا انفیکشن سے ہلاک ہونے والوں کے ناموں سے بھر دیا۔

اخبار نے جو موضوع دیا وہ بھی خوف میں مبتلا کرتا ہے، موضوع ہے’یو ایس ڈیتھ نیئر 100,000،این ان کیلکولیبل لوس‘ (امریکہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً 100,000، ناقابل تلافی نقصان)۔ اس کے بعد نیچے ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیاگیا ہے'دے ور ناٹ سمپلی نیمس ان اے لسٹ، دے ور اس' (یہ صرف فہرست میں شامل نام نہیں، یہ ہم تھے)۔

تازہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی سپر پاور امریکہ میں اس انفیکشن نے سب سے زیادہ قہر برسایا ہے۔امریکہ میں وائرس کے 16 لاکھ 66 ہزار 828 معاملے آچکے ہیں اور 98ہزار 683 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ملک میں 11 لاکھ 21 ہزار 231 افراد اس وائرس سے ٹھیک ہوچکے ہیں جبکہ چار لاکھ 46 ہزار 914 ابھی اس کی زد میں ہیں اور 17 ہزار 133 زندگی اور موت کے درمیان جھول رہےہیں۔

اخبار کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کرکے کسی کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے ذریعہ ملک میں کورونا کی کیا صورت حال ہے،اس کی سنجیدگی کو سامنے رکھنا چاہتا ہے۔

اخبار نے اس کام کے لیے تعزیتی خبروں اور ہلاک شدگان کے نوٹس جمع کیے جس سے ہلاک شدگان کے نام کی فہرست بنائی گئی۔صفحہ اول پر وائرس سے مرنے والوں کے نام کیوں شائع کئے ،اس پر'ٹائمس انسائڈر'میں ایک مضمون بھی لکھا ہے۔اصل میں اخبار کے مدیران نے اس خطرناک صورت حال کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔اسسٹنٹ ایڈیٹر گرافکس سیمون لینڈن نے لکھا کہ وہ تعداد کو اس شکل میں سب کے سامنے لانا چاہتی تھیں ،جس سے لوگوں کو یہ پتہ چلے کہ کتنی بڑی تعداد میں وائرس نے جان لی ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہو کہ کس طبقے کے لوگوں کی جان کا یہ انفیکشن دشمن بنا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ سبھی محکمے کے صحافی اس وبا کو رپورٹ کررہے ہیں۔سیمون کا کہنا ہے کہ 'ہم جانتے تھے کہ ہم میل کا پتھر کھڑا کرنے جارہے ہیں اور یہ سمجھ تھی کہ تعداد کو رکھنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے'۔

انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ ڈاٹ یا اسٹک فیگر پیج پر لگانےسے آپ کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون لوگ تھے اور وہ ہمارے لئے کیا معنی رکھتے تھے۔

ایک ریسرچر ایلن نے کووڈ-19 سے متاثرین کی تعزیتی خبر اور ڈیتھ نوٹس جمع کئے جو الگ الگ اخبارات میں شائع ہوئےتھے۔ اس کے بعد نیوز روم میں ایڈیٹروں نے صحافت سے حال میں گریجویٹ ہوئے تین طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر کام کیا اور فہرست تیار کی۔

چیف کریئٹو افسر ٹام باڈکن نے کہا کہ جدید دور میں یہ یقینی طورپر اپنی طرح کا پہلا کام ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.