امریکہ نے چین پر ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے اور انہوں نے ایغور پر تشدد کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔
حقوق انسانی گروپوں نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے 'ری ایجوکیشن کیمپ' کے طور پر گذشتہ کچھ برسوں سے ایغور مسلمانوں کو حراست میں لے رکھا ہے'۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین زبردستی ایغور مسلمانوں کو مزدوری کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ تناؤ امریکی صدر ٹرمپ کے دور حکومت کی خصوصیت رہا ہے۔ کورونا وبا کے دور میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی نے تجارتی پالیسیوں کو متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا نئی انتظامیہ کو نیک خواہشات کا اظہار
ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمال مغربی چین کے صوبہ سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر ایغور مسلمان خواتین کی جبری نسبندی ہوئی ہے۔
چینی حکومت نے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمان خواتین کے زبردستی اسقاط حمل، جبری نسبندی اور جنسی تشدد کے الزامات عائد کیے جانے کی تردید کی ہے۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ تقریبا دس لاکھ ایغور مسلمان اور دوسرے لوگوں کو جن میں زیادہ تر مسلمان اقلیت شامل ہیں، حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت اس کو 'ری ایجوکیشن کیمپ' کہتی ہے۔
اس سے قبل چین نے ایسے کسی بھی کیمپ کی موجودگی سے انکار کیا تھا لیکن بعد میں یہ کہہ کر اس کا دفاع کیا کہ یہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ضروری اقدام تھا۔
حالیہ چند برسوں میں ایغور مسلمانوں کے متعلق چین کا جو رویہ رہا ہے اس بارے بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوتی رہی ہے۔