سنسناٹی یونیورسٹی کے بائیو انجینیئرنگ طلبہ میجر وردھا اگروال کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ سمسٹر میں دی گئی چھوٹ کو ہٹادینے سے وہ امریکہ میں اپنے مستقبل کے حوالے سے بے خبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وبائی مرض کے بحران کے دوران وہ اپنے اہل خانہ سے دور ہیں، ایسے میں وہ اب اپنے ویزا اسٹیٹس اور تعلیم کے بارے میں فکرمند ہیں۔ بہت سارے بین الاقوامی طلبا اسی طرح کی پریشانی سے دوچار ہیں اور ان کا بھی خیال ہے کہ یہ نئی پالیسیاں غیر منصفانہ ہیں۔
امریکہ کی امگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ پالیسی (آئی سی ای) کی نئی پالیسی کے مطابق اگر تعلمیی ادارے خزاں کے سمسٹر کے لیے مکمل طور پر آن لائن پڑھا رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں انہیں ملک سے رخصت ہونا پڑے گا یا پھر انہیں ایسی یونیورسٹی میں منتقل ہونا پڑے گا جہاں پر نارمل کلاسز منعقد کئے جارہے ہیں۔ ورنہ ایسے حالات میں انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
جو یونیورسٹی نصف حاضر نظام (جسے ہائبر کہا جاتا ہے) کی طرف جارہی ہیں ان حالات میں بین الاقوامی طلبا کو ایسی یونیورسٹی کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں کم از کم ایک کورس کے لیے یونیورسٹی میں حاضر ہونا پڑے۔ لیکن اگر کسی یونیورسٹی کو وسط سمسٹر کے دوران کورونا وبا کی کی وجہ سے مکمل طور پر آن لائن کلاسز منعقد کرنے کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں طلبا کو ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔
امگریشن وکیل منجوناتھ گوکھرے نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پالیسی ٹرمپ انتظامیہ کی سیاسی حکمت عملی ہے تاکہ ہجرت کو کم کیا جاسکے یا یونیورسٹی کو دوبارہ کھولنے کے لیے مجبور کیا جاسکے۔ تاہم وہ طلباء کو پرسکون رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ یہ پالیسی ابھی تک نافذ نہیں کی گئی ہے۔
وہیں ہارورڈ اور ایم آئی ٹی جیسے تعلیمی ادارے نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ جس سے گوکرے کو امید ہے کہ یہ قانونی کارروائی ان پالیسیوں کو کبھی وجود میں نہیں آنے دے گی۔