بیجنگ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازع کے درمیان بائیڈن انتظامیہ نے منگل کو ژنجیانگ میں مسلم ایغوروں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیت گروہوں کے خلاف چینی کارروائیوں کو 'نسل کشی' قرار دیا۔
منگل کو جاری ''2020 میں چین میں انسانی حقوق کی پامالی'' کے متعلق ایک رپورٹ پر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ''ژنجیانگ میں بنیادی طور پر مسلم ایغوروں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے خلاف ایک سال کے دوران نسل کشی اور انسانیت مخالف جرائم پیش آئے ہیں''۔
امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے آخری دنوں کے دوران زنجیانگ میں باضابطہ طور پر نسل کشی کی بات کہی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے پومپیو کے جائزے کی تصدیق کی ہے۔ اس کے علاوہ منگل کو امریکی حکومت نے باقاعدگی سے اس بات کا اعلان کیا۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ اس جرم میں 10 لاکھ سے زائد شہریوں کی من مانی قید یا دیگر شدید جسمانی آزادی سے محروم ہونا شامل ہے۔ زبردستی نس بندی، زبردستی اسقاط حمل اور چین میں بچوں کی پیدائش پر قابو پانے والی پالیسیاں غیر انسانی ہیں۔ اس کے علاوہ عصمت دری، من مانی طور پر حراست میں لئے جانے والوں کی ایک بڑی تعداد پر اذیتیں، بندھوا مزدوری، اور مذہب یا اعتقاد اظہار رائے کی آزادی اور نقل و حرکت کی آزادی پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ چینی سرکاری عہدیدار اور سکیورٹی خدمات اکثر مستثنیٰ کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کرتی ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "حکام نے پولیس کے ذریعہ ہلاکتوں کے مبینہ واقعات کے بعد تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے پولیس میں بدعنوانی یا تادیبی کارروائی کے نتائج کا اعلان نہیں کیا۔"
یہ رپورٹ مغربی ممالک اور چین کے مابین سخت کشیدگی کے درمیان سامنے آئی ہے۔
کشیدگی کا حالیہ اضافہ امریکہ، یوروپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے ایغوروں کے ساتھ مظالم کے ذمہ دار چینی عہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بعد شروع ہوا۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ "ایسی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ حکومت یا اس کے ایجنٹوں نے من مانی یا غیر قانونی طور پر لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ بہت سے معاملے کوئی تفصیلات دستیاب نہیں تھیں۔"
محکمہ نے کہا کہ زنجیانگ میں انٹرنمنٹ کیمپوں میں نظربندیوں سے متعلق حراستی اموات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ایغور کنبے کے افراد کے مطعلق متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں جنہوں نے ان کے رشتہ داروں کو دریافت کیا تھا کہ وہ انٹرنمنٹ کیمپوں میں رہتے ہوئے یا رہائی کے کچھ ہفتوں کے اندر اندر ان کی موت ہو گئی۔
محکمہ خارجہ نے ایک ایغور شہری عبد الغفور ہپیز کی مثال بھی پیش کی، جنہیں 2017 سے زنجیانگ انٹرنمنٹ کیمپ میں حراست میں لیا گیا تھا۔
چینی حکومت نے اکتوبر میں اقوام متحدہ میں باضابطہ طور پر ہپیز کی موت کی تصدیق کی تھی۔
حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ہپیز کی موت "شدید نمونیا اور تپ دق" کے سبب ہوئی ہے۔
ان کی بیٹی نے بتایا کہ اس نے آخری بار سن 2016 میں ہیپیز کی آواز سنی تھی۔ ذرائع کے مطابق وہ 2017 کے آخر میں غائب ہوگئے تھے اور انہیں کسی انٹرنمنٹ کیمپ میں بغیر کسی چارج کے رکھا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے زنجیناگ میں ایغوروں، نسلی قازق، کرغیز اور دیگر مسلم اور نسلی اقلیتی گروپوں کے ممبروں کو بڑے پیمانے پر من مانی طور پر نظربند کیا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کے انسانی حقوق کے محافظوں نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ نظربندیاں لاپتہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ اکثر خاندانوں کو نظربندی کے وقفے یا اس کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ووہان میں حکام نے چار شہری صحافیوں، چن کیوشی، لی زہوا، جانگ ژان اور فینگ بن کو نظر بند کر دیا جنہوں نے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور شہریوں کا انٹرویو لیا تھا۔