ETV Bharat / international

امریکی انتخابات: 'پہلے کبھی بھی رائے عامہ اس حد تک یکطرفہ نہیں ہوئی'

سینئر صحافی سمیتا شرما کے ساتھ بات کرتے ہوئے سفارتکار میرا شنکر نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکی سماج میں یکطرفہ رائے عامہ کچھ اس طرح سے ہموار ہو رہا ہے، جس کی مثال ماضی میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ دونوں پارٹیوں میں متوسط سوچ رکھنے والے جو پہلے خارجی اور معاشی امور کے حوالے سے قومی مفاد میں اتفاق رائے قائم کرلیتے تھے، اب یا تو سخت گیری کی انتہا پر چلے گئے ہیں یا پھر اعتدال پسندی کی اتنہا پر نظر آرہے ہیں۔ اس خصوصی انٹر ویو میں سابق سفیر نے ٹرمپ اور بائیڈن کے الگ الگ اور متضاد خیالات کے بارے میں بھی بات کی ہے۔

sdf
sdf
author img

By

Published : Nov 3, 2020, 7:56 PM IST

امریکہ میں بھارت کی سفیر رہ چکی میرا شنکر کا کہنا ہےکہ امریکہ میں ہورہے انتخابات سے متعلق وسیع پیمانے پر تشدد بپا ہوجانے کا خدشہ ہے۔ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، جہاں اداروں کی ہمیشہ اعتباریت حاصل رہی ہے، وہاں یہ غیر معمولی صورتحال ڈونالڈ ٹرمپ کے غیر معمولی صدارتی دور میں پنپ گئی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ اگر وہ دوسرے مرحلے کے لیے بطور صدر منتخب نہیں ہوتے ہیں، تو انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا جائے۔

خصوصی انٹرویو: ویڈیو

پیش ہیں انٹرویو کے اقتباسات:

سوال: دُنیا کی سب سے قدیم جمہوریت میں انتخابات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تشدد بپا ہوجانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ کسی نے کبھی یہ سوچا نہیں ہوگا کہ امریکا جیسے جمہوری ملک، جس کے اداروں کو اعتباریت حاصل ہے، یہاں اس طرح کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ صورتحال غیر معمولی صدارتی دور ( ٹرمپ کے دور اقتدار) کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔

صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر ڈیموکریٹس نے انتخابی دھاندلیاں کیں، تو وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے بیلٹ کے ذریعے پولنگ کو بھی فراڈ کا ایک ممکنہ ذریعہ قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسے اُمید وار (ٹرمپ) جو خود کو ہارتا ہوا محسوس کررہا ہے، نے انتخابات کی قانونی حیثیت اور اعتباریت پر پیشگی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔

اُن کے ایسے بیانات کی وجہ سے اُن کے حامیوں میں بھی جنون بڑھ رہا ہے۔ سخت گیر عناصر اپنے طور پر تیاری کررہے ہیں۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے ایک انتخابی اُمیدوار (ٹرمپ) نے اپنی انتخابی حکمت عملی کے تحت اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔

سوال: ماضی میں بھی امریکی انتخابات میں اُمیدواروں کے درمیان سخت مقابلے ہوتے رہے ہیں لیکن کیا2020 ء کے یہ انتخابات امریکی تاریخ میں بدلاو کا باعث بنیں گے؟

جواب: جی ہاں۔ دو صدارتی اُمیدواروں (ٹرمپ اور بائیڈن) نے اپنے اپنے وژن کے حوالے سے دو مختلف نظریات سامنے لائے ہیں۔ دونوں نے معاشی پالیسیوں، صحت عامہ کے بارے میں موسمی تغیر کے مسئلے پر، توانائی کے معاملات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات جو ایک ایک دوسرے سے متضاد ہیں پیش کئے ہیں۔

دونوں صدارتی اُمیدوار اپنے اپنے طور پر امریکی شہریوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ صحیح ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران امریکہ میں کس طرح سے یکطرفہ رائہ عامہ ہموار ہورہا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ امریکہ میں دونوں کلیدی جماعتوں یعنی ڈیموکریٹ اور ریپلکن پارٹی میں اعتدال پسند لوگ دیکھنے کو ملتے تھے جو مل جل کر اتفاق رائے سے خارجی اور معاشی پالیسیاں مرتب کرتے تھے، لیکن اب اتفاق رائے قائم کرنے کے حوالے سے یہ درمیانی راستہ تحلیل ہوگیا ہے۔

اب دونوں پارٹیاں دو مختلف سمتوں میں جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ایک جانب ریپلیکین پارٹی ہے جو ملک کے اساسی اصولوں سے متصادم نظر آتی ہے اور دوسری جانب بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی ہے جو جارحیت کی اپنی انتہا پر ہے۔ دونوں جماعتیں دو مختلف سمتوں میں جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

فی الوقت ڈیموکرٹک پارٹی ٹرمپ کو اقتدار سے باہر کرنے کےلئے متحد ہے یہاں تک کہ بائیں بازو کے لوگ مکمل طور پر بائیڈن کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر بائیڈن جیت جاتے ہیں تو وہ اتفاق رائے قائم کرنے کے نظام کو چیلنج کریں گے۔ وہ صرف اعتدال پسند لوگوں کو لیکر چلیں گے۔ ساتھ ہی ریپبلیکن پارٹی کے اُن اراکین کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں گے، جو ٹرمپ کی مخالفت کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔

ریپلیکن کے بعض سینئر اراکین، جن میں وہ بھی شامل ہیں، جنہوں نے صدر ریگن یا جارچ بش سینئر اور جارج بش جونئیر کی حکومتوں میں بھی کام کیا ہے،کھل کر ٹرمپ کی مخالفت میں آگئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ابراہیم لنکن کے نام سے منسوب لنکن پروجیکٹ کو چلا رہے ہیں۔ یہ لوگ کھلے عام اشتہارات کے ذریعے ان انتخابات میں ٹرمپ کے خلاف اور بائیڈن کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

ٹرمپ کا اپنا حلقہ انتخاب جو ایک سخت حلقہ رہا ہے، مکمل طور پر ٹرمپ کا حامی ہے۔ اس طرح سے اُنہیں برے سے برے حالات میں بھی بیالیس فیصد ووٹ ملنا یقینی ہے۔ یہ رائے دہندگان مکمل طور پر اُن کے حامی ہیں۔ ٹرمپ امن و قانون، نسلی فسادات کے خدشے جیسے معاملوں پر لوگوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں اور نسلی فسادات کے معاملے پر وہ اُن سفید فام لوگوں کو بھی لبھانے کی کوشش کررہے ہیں، جو اُن کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ٹرمپ افریقن اور لیٹن رائے دہندگان کو یہ کہہ کر اپنے طرف مائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کہ اُن کے دور اقتدار میں ان کی بے روزگاری کی شرح کم رہی ہے۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ امریکا میں کثیر جماعتی نظام پیدا نہیں ہوسکا ہے؟

یہاں کئی آزاد اُمیدوار بھی ہیں، جو صدارتی عہدے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ الگور کے دور میں بھی آپ نے اسے دیکھا ہوگا۔ گذشتہ انتخابات میں ایک خود مختار اُمید وار کی حمایت، ہلری کے مخالفین نے کی تھی، لیکن عمومی طور پر امریکی سیاست کا محور ان ہی دو جماعتوں (ڈیموکریٹ اور ریپلیکن) کے گرد گھومتا رہا ہے۔ دوسروں نے کوئی اثر پیدا نہیں کیا ہے۔ دونوں جماعتیں دو مختلف نظریات کی حامی رہی ہیں۔ اس طرح سے کچھ حد تک آرا کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ ٹی پارٹی الگ نہیں ہے بلکہ یہ ریپبلیکن پارٹی کا حصہ ہے، جس طرح سے پراگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ ہیں۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ امریکہ میں انتخابی نتائج کے حوالے سے سیاسی پیشگوئیاں صحیح ثابت نہیں ہورہی ہیں؟

جواب: اس وقت رائے عامہ جانچنے والے زیادہ تر بائیڈن کو ہی قومی سطح پر برتری دکھا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے یا گزشتہ پندرہ دنوں کے دوران جو رائے عامہ کے جائزے سامنے آئے ہیں، اُن میں بائیڈن کو قومی سطح پر سات اعشاریہ آٹھ سے دس فیصد تک کی برتری دکھائی گئی ہے، لیکن یہ تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ ان اعداد و شمار کی بنا پر یہ طے ہوگا کہ صدر کون بنے گا۔ صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج ووٹوں کی اکثریت پر منحصر ہے۔

اس سے قبل ہلری کلنٹن الیکشن ہار گئی تھیں، حالانکہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے مقابلے میں تیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے۔ انہیں اس لئے شکست ہوئی تھی کیونکہ اُنہیں بہت کم الیکٹورل کالج ووٹ ملے تھے۔ انہوں نے پنسیلوینیا، مشی گن اور وسکونین جیسی ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جہاں روایتی طور پر ڈیموکریٹس کو حمایت حاصل ہے، لیکن ٹرمپ نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کےلئے امریکہ فرسٹ، معاشی تحفظ اور امریکوں کو نوکریاں دلانے جیسے نعرے بلند کئے تھے۔

در اصل امریکیوں میں ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ گلوبلائزیشن ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس طبقے کو لگتا ہے کہ عالم گیریت کی وجہ مینو فیکچرنگ سے وابستہ روز گار کے مواقع چین چلے گئے ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ نوکریاں بھارت لے گیا ہے۔

اُن کو یہ بھی لگتا ہے کہ وہ اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ اگر وہ اجرتیں بڑھانے کا شدت سے مطالبہ کرنے لگیں گے تو کمپنیاں اپنے مینو فیکچرنگ بیرون ملک منتقل کریں گی۔ غرض امریکہ میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے، جسے لگتا ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے اُنہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے اُنہوں نے ٹرمپ کی حمایت کی ہے۔ تاہم یہ بات بائیڈن کے حق میں جاتی ہے کہ وہ خود ورکنگ کلاس سے آئے ہوئے ہیں۔ اس لئے رائے عامہ کے جائزوں میں انہیں مشی گن اور وسکونین جیسی ریاستوں میں برتری ظاہر ہوئی ہے۔ جہاں تک فلوریڈا اور جارجیا کا تعلق ہے، ان میں بائیڈن کو دو فیصد کی برتری حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ ان جگہوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تاکہ رائے عامہ کو اپنے حق میں کر سکیں۔

امریکہ میں بھارت کی سفیر رہ چکی میرا شنکر کا کہنا ہےکہ امریکہ میں ہورہے انتخابات سے متعلق وسیع پیمانے پر تشدد بپا ہوجانے کا خدشہ ہے۔ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، جہاں اداروں کی ہمیشہ اعتباریت حاصل رہی ہے، وہاں یہ غیر معمولی صورتحال ڈونالڈ ٹرمپ کے غیر معمولی صدارتی دور میں پنپ گئی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ اگر وہ دوسرے مرحلے کے لیے بطور صدر منتخب نہیں ہوتے ہیں، تو انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا جائے۔

خصوصی انٹرویو: ویڈیو

پیش ہیں انٹرویو کے اقتباسات:

سوال: دُنیا کی سب سے قدیم جمہوریت میں انتخابات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تشدد بپا ہوجانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ کسی نے کبھی یہ سوچا نہیں ہوگا کہ امریکا جیسے جمہوری ملک، جس کے اداروں کو اعتباریت حاصل ہے، یہاں اس طرح کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ صورتحال غیر معمولی صدارتی دور ( ٹرمپ کے دور اقتدار) کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔

صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر ڈیموکریٹس نے انتخابی دھاندلیاں کیں، تو وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے بیلٹ کے ذریعے پولنگ کو بھی فراڈ کا ایک ممکنہ ذریعہ قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسے اُمید وار (ٹرمپ) جو خود کو ہارتا ہوا محسوس کررہا ہے، نے انتخابات کی قانونی حیثیت اور اعتباریت پر پیشگی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔

اُن کے ایسے بیانات کی وجہ سے اُن کے حامیوں میں بھی جنون بڑھ رہا ہے۔ سخت گیر عناصر اپنے طور پر تیاری کررہے ہیں۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے ایک انتخابی اُمیدوار (ٹرمپ) نے اپنی انتخابی حکمت عملی کے تحت اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔

سوال: ماضی میں بھی امریکی انتخابات میں اُمیدواروں کے درمیان سخت مقابلے ہوتے رہے ہیں لیکن کیا2020 ء کے یہ انتخابات امریکی تاریخ میں بدلاو کا باعث بنیں گے؟

جواب: جی ہاں۔ دو صدارتی اُمیدواروں (ٹرمپ اور بائیڈن) نے اپنے اپنے وژن کے حوالے سے دو مختلف نظریات سامنے لائے ہیں۔ دونوں نے معاشی پالیسیوں، صحت عامہ کے بارے میں موسمی تغیر کے مسئلے پر، توانائی کے معاملات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات جو ایک ایک دوسرے سے متضاد ہیں پیش کئے ہیں۔

دونوں صدارتی اُمیدوار اپنے اپنے طور پر امریکی شہریوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ صحیح ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران امریکہ میں کس طرح سے یکطرفہ رائہ عامہ ہموار ہورہا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ امریکہ میں دونوں کلیدی جماعتوں یعنی ڈیموکریٹ اور ریپلکن پارٹی میں اعتدال پسند لوگ دیکھنے کو ملتے تھے جو مل جل کر اتفاق رائے سے خارجی اور معاشی پالیسیاں مرتب کرتے تھے، لیکن اب اتفاق رائے قائم کرنے کے حوالے سے یہ درمیانی راستہ تحلیل ہوگیا ہے۔

اب دونوں پارٹیاں دو مختلف سمتوں میں جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ایک جانب ریپلیکین پارٹی ہے جو ملک کے اساسی اصولوں سے متصادم نظر آتی ہے اور دوسری جانب بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی ہے جو جارحیت کی اپنی انتہا پر ہے۔ دونوں جماعتیں دو مختلف سمتوں میں جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

فی الوقت ڈیموکرٹک پارٹی ٹرمپ کو اقتدار سے باہر کرنے کےلئے متحد ہے یہاں تک کہ بائیں بازو کے لوگ مکمل طور پر بائیڈن کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر بائیڈن جیت جاتے ہیں تو وہ اتفاق رائے قائم کرنے کے نظام کو چیلنج کریں گے۔ وہ صرف اعتدال پسند لوگوں کو لیکر چلیں گے۔ ساتھ ہی ریپبلیکن پارٹی کے اُن اراکین کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں گے، جو ٹرمپ کی مخالفت کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔

ریپلیکن کے بعض سینئر اراکین، جن میں وہ بھی شامل ہیں، جنہوں نے صدر ریگن یا جارچ بش سینئر اور جارج بش جونئیر کی حکومتوں میں بھی کام کیا ہے،کھل کر ٹرمپ کی مخالفت میں آگئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ابراہیم لنکن کے نام سے منسوب لنکن پروجیکٹ کو چلا رہے ہیں۔ یہ لوگ کھلے عام اشتہارات کے ذریعے ان انتخابات میں ٹرمپ کے خلاف اور بائیڈن کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

ٹرمپ کا اپنا حلقہ انتخاب جو ایک سخت حلقہ رہا ہے، مکمل طور پر ٹرمپ کا حامی ہے۔ اس طرح سے اُنہیں برے سے برے حالات میں بھی بیالیس فیصد ووٹ ملنا یقینی ہے۔ یہ رائے دہندگان مکمل طور پر اُن کے حامی ہیں۔ ٹرمپ امن و قانون، نسلی فسادات کے خدشے جیسے معاملوں پر لوگوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں اور نسلی فسادات کے معاملے پر وہ اُن سفید فام لوگوں کو بھی لبھانے کی کوشش کررہے ہیں، جو اُن کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ٹرمپ افریقن اور لیٹن رائے دہندگان کو یہ کہہ کر اپنے طرف مائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کہ اُن کے دور اقتدار میں ان کی بے روزگاری کی شرح کم رہی ہے۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ امریکا میں کثیر جماعتی نظام پیدا نہیں ہوسکا ہے؟

یہاں کئی آزاد اُمیدوار بھی ہیں، جو صدارتی عہدے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ الگور کے دور میں بھی آپ نے اسے دیکھا ہوگا۔ گذشتہ انتخابات میں ایک خود مختار اُمید وار کی حمایت، ہلری کے مخالفین نے کی تھی، لیکن عمومی طور پر امریکی سیاست کا محور ان ہی دو جماعتوں (ڈیموکریٹ اور ریپلیکن) کے گرد گھومتا رہا ہے۔ دوسروں نے کوئی اثر پیدا نہیں کیا ہے۔ دونوں جماعتیں دو مختلف نظریات کی حامی رہی ہیں۔ اس طرح سے کچھ حد تک آرا کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ ٹی پارٹی الگ نہیں ہے بلکہ یہ ریپبلیکن پارٹی کا حصہ ہے، جس طرح سے پراگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ ہیں۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ امریکہ میں انتخابی نتائج کے حوالے سے سیاسی پیشگوئیاں صحیح ثابت نہیں ہورہی ہیں؟

جواب: اس وقت رائے عامہ جانچنے والے زیادہ تر بائیڈن کو ہی قومی سطح پر برتری دکھا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے یا گزشتہ پندرہ دنوں کے دوران جو رائے عامہ کے جائزے سامنے آئے ہیں، اُن میں بائیڈن کو قومی سطح پر سات اعشاریہ آٹھ سے دس فیصد تک کی برتری دکھائی گئی ہے، لیکن یہ تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ ان اعداد و شمار کی بنا پر یہ طے ہوگا کہ صدر کون بنے گا۔ صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج ووٹوں کی اکثریت پر منحصر ہے۔

اس سے قبل ہلری کلنٹن الیکشن ہار گئی تھیں، حالانکہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے مقابلے میں تیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے۔ انہیں اس لئے شکست ہوئی تھی کیونکہ اُنہیں بہت کم الیکٹورل کالج ووٹ ملے تھے۔ انہوں نے پنسیلوینیا، مشی گن اور وسکونین جیسی ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جہاں روایتی طور پر ڈیموکریٹس کو حمایت حاصل ہے، لیکن ٹرمپ نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کےلئے امریکہ فرسٹ، معاشی تحفظ اور امریکوں کو نوکریاں دلانے جیسے نعرے بلند کئے تھے۔

در اصل امریکیوں میں ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ گلوبلائزیشن ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس طبقے کو لگتا ہے کہ عالم گیریت کی وجہ مینو فیکچرنگ سے وابستہ روز گار کے مواقع چین چلے گئے ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ نوکریاں بھارت لے گیا ہے۔

اُن کو یہ بھی لگتا ہے کہ وہ اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ اگر وہ اجرتیں بڑھانے کا شدت سے مطالبہ کرنے لگیں گے تو کمپنیاں اپنے مینو فیکچرنگ بیرون ملک منتقل کریں گی۔ غرض امریکہ میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے، جسے لگتا ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے اُنہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے اُنہوں نے ٹرمپ کی حمایت کی ہے۔ تاہم یہ بات بائیڈن کے حق میں جاتی ہے کہ وہ خود ورکنگ کلاس سے آئے ہوئے ہیں۔ اس لئے رائے عامہ کے جائزوں میں انہیں مشی گن اور وسکونین جیسی ریاستوں میں برتری ظاہر ہوئی ہے۔ جہاں تک فلوریڈا اور جارجیا کا تعلق ہے، ان میں بائیڈن کو دو فیصد کی برتری حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ ان جگہوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تاکہ رائے عامہ کو اپنے حق میں کر سکیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.