جنوری 2019 کے ابتدا میں صدر ٹرمپ نے افغانستان میں بھارت کی جانب سے کی گئ امدادی کارروائیوں کا مذاق اڑایا تھا ۔ اُنہوں نے افغانستان کے لئے بھارتی امداد پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا، ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم لائبریری کے لئے اظہار تشکر کریں۔ مجھے نہیں پتہ کہ افغانستان میں لائبریری کا استعمال کون کرتا ہے۔ وہ افغانستان میں بھارت کے تعاون سے تعمیر کی جانے والی پارلیمنٹ عمارت کی طرف اشارہ کررہے تھے، جس کا افتتاح وزیر اعظم مودی نے 2015 میں کیا تھا۔ اس عمارت کو لائبریری بلڈنگ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے افغانستان کے لئے اس امداد کو محض ایک لائبریری قائم کرنا قرار دیا۔ ٹرمپ نے یہ باتیں اُس پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں ، جس میں انہوں نے افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ کی ان باتوں سے نئی دہلی کو مایوسی ہوئی، کیونکہ یہ باتیں کہہ کر صدر ٹرمپ نے نئی دہلی کی جانب سے تین بلین ڈالر کی اس امداد اور تعاون کی اہمیت کم کردی، جو افغانستان کی تعمیر نو کے لئے کی گئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو امریکہ اور پاکستان سے بھی زیادہ مقامی افغانوں کا اعتماد حاصل ہے۔
صدر ٹرمپ نے جب احمد آباد کے موٹیرا میں واقع دُنیا کے سب سے بڑے اور نئے تعمیر شدہ کرکٹ اسٹیڈیم میں غیرمعمولی عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ اس موقع پر اُنہوں نے شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کے تئیں شیریں لب و لہجے کا مظاہرہ کیا۔
امریکہ کے 45 ویں امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کہا کہ امریکہ اور بھارت نے شدت پسندوں اور اُن کے نظریات کے خلاف متحد ہوکر کام کرنے کا عزم لیا ہوا ہے۔ جب سے میں نے اپنا عہدہ سنبھالا ہے تب سے میری حکومت اور پاکستان نے مل کر پاکستانی سرحد پر شدت پسند تنظیموں اور ملی ٹینٹوں کے خلاف لڑائی جارہی رکھے ہوئے ہیں۔ جب ٹرمپ یہ باتیں کہہ رہے تھے ، وزیر اعظم مودی 'نمستے ٹرمپ' کے نام سے منسوب اس تقریب کے اسٹیج پر اُن کے ہمراہ کھڑے تھے۔
حالانکہ صدر ٹرمپ نے اپنے اس دورے کو بھارت تک ہی محدود رکھا ہے۔ جبکہ سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے سال 2010 اور سال 2015 میں بھارت کا دورے کرتے وقت پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔لیکن اس سب کے باوجود ٹرمپ نے پاکستان کے تئیں نرم گوشہ کا مظاہرہ کیا کیونکہ اُن کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہورہا ہے، جب پاکستان کے تعاون سے امریکہ اور طالبان کے درمیان 'امن معاہدہ' ہونے جارہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہیں۔ شکر ہے کہ پاکستان اور ہماری کوششیں رنگ لارہی ہیں اور ہمیں کشیدگی کم کرنے اور استحکام پیدا کرنے اور مستقبل میں جنوبی ایشیاء کی تمام اقوام میں ہم آہنگی پیدا ہوجانے کی اُمید ہے۔
بنگلورو کے تکشاشیلا انسٹی چیوشن کے انٹیلی جنس مبصر اور 'را' کے سابق اسپیشل سیکرٹری آنند ارنی کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان معاہدہ چاہتا ہے ۔ یہ اُن کے لئے اہم ہے کیونکہ یہ ان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے میں مدد کرے گا۔اُن کے لئے ضروری ہے کہ نومبر2020میں صدارتی انتخابات سے پہلے افغانستان میں تعینات امریکی فوج واپس گھر لوٹیں۔ ٹرمپ نے اپنے ملک کے عوام کے ساتھ اس کا وعدہ کیا ہوا ہے۔
ٹرمپ کے لئے یہ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ گزشتہ سال وائٹ ہاؤس میں اور اس سال کے ابتدا میں داؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے پہلو میں بیٹھ کر انہوں نے عمران خان کو ایک 'اچھا دوست' قرار دیا۔ حالانکہ ٹرمپ نے جنوری 2018 میں پاکستان سے متعلق دھمکی آمیز ٹویٹ کیا تھا ۔
پاکستان میں تعینات رہے سابق بھارتی سفیر شرت سبھروال کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات لین دین سے متعلق ہیں۔ امریکہ کا جھکاؤ پاکستان کی طرف ہے اور وہ اسے پچھلے ایک سال سے ( افغانستان میں امن معاہدے کے لئے ) مدد مانگ رہا ہے۔ جبکہ پاکستان نے واضح طور پر اس معاہدے کو یقینی بنانے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔
اس معاہدے سے قبل تشدد میں کمی صرف ایک ہفتہ قبل ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ان سب باتوں کے پیش نظر ٹرمپ نے گجرات میں جو کچھ بھی کہا، وہ قطعی حیرا ن کن نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالتا آیا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے لیکن اس وقت افغان معاملے کے حوالے سے امریکہ کا پاکستان پر انحصار ہے، اس لئے وہ پاکستان پر زیادہ سختی نہیں کرسکتا ہے۔
درایں اثنا افغانستان میں مجوزہ امن معاہدے کے حوالے سے بھارت کو لاحق یہ تشویش بدستور قائم ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کا کردار بھارت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اگر بھارت کو ہدف بنانے والی جنگجوں تنظیموں بشمول لشکر طیبہ نے اپنے تربیتی کیمپ افغانستان منتقل کئے تو اس کے بعد جنگجوئوں کو کشمیر میں دھکیلا جاسکتا ہے۔
بھارت سے یہ اُمید کی جارہی ہے کہ وہ ٹرمپ کی افغان معاہدے کے حوالے سے اپنی تشویش ختم کرے ۔ جبکہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے، جب کابل میں صدارتی انتخابات ہورہے ہیں، جن میں اشرف غنی کی جیت کے امکانات ہیں۔نئی دہلی کو اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا کہ کہیں صدر ٹرمپ پاکستان کو خوش کرنے کیلئے پھر کشمیر پر 'ثالثی' کی پیش کش نہ کر ڈالیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے، جسے بھارت نے سختی سے مسترد کردیا ہے کیونکہ بھارت کا ماننا ہے کہ یہ مسئلہ دوفریقی مسئلہ ہے۔