امریکہ جو دنیا کا سوپر پاور ملک کہلاتا ہے، وہ ان دنوں برفانی طوفان اور سرد ترین موسم کے قہر سے جوجھ رہا ہے۔ دو روز قبل تک وہاں برف کے سبب عوامی زندگی ٹھہر سی گئی تھی، ضروریات زندگی کا حصول بھی مشکل ہورہا تھا۔ تاہم اب امریکہ کی کئی ریاستوں میں برفباری کا طوفان تھمنے کے بعد لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ تاہم اس قہر سے اب تک کم سے کم 60 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
صدر بائیڈن نے متاثرہ جگہوں کے دورے کا پروگرام بنایا ہے، تاہم انہوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے جانے سے ریاست میں جاری امدادی سرگرمیوں پر کوئی اثر نہ پڑے تو وہ ٹیکساس اور دیگر جگہوں کا دورہ ضرور کریں گے۔
واضح رہے کہ سردی کی وجہ سے جیکس اور میسی سیپی کے علاقوں میں بھی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ کو پانی میسر نہیں ہے اس کے علاوہ ٹینسی جو سب سے بڑی کاونٹی ہے اور جس میں میمپس کا شہر بھی آتا ہے وہاں ساڑھ چھ لاکھ سے زیادہ شہریوں کو پانی دستیاب نہیں ہے۔
بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ساوتھ ویسٹرن سٹیٹ انرجی کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جانے کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اچانک بہت زیادہ اضافہ ہو گیا اور اس اضافی مانگ کا بوجھ سیدھے طور پر بجلی کے نظام پر پڑنے سے پورا نظام ٹھپ ہوگیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ فروری کی 18 تاریخ تک ٹیکساس میں ایک لاکھ اسی ہزار گھروں اور کاروباری اداروں کو بجلی کی فراہمی بحال نہیں ہو سکی تھی۔ اس ہفتے کے شروع میں درجہ حرارت تشویش ناک حد تک گر جانے کی وجہ سے 33 لاکھ افارد کو بجلی کی فراہمی بند ہو گئی تھی۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے ٹیکساس سمیت سات ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ صرف ٹیکساس میں اس بار تیس برس میں سب سے زیادہ برفباری ہوئی ہے۔ ٹیکساس میں برفباری کا سلسلہ جمعہ کے بعد بھی جاری رہا تھا۔ جب کہ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ڈیڑھ کروڑ افراد کو اس برفباری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ ہفتے کم درجہ حرارت کے 2 ہزار ریکارڈ ٹوٹے اورگزشتہ روز 20 شہروں میں تاریخ کے کم ترین درجہ حرارت ریکارڈ کئے گئے۔ ماہرین موسمیات نے رواں ہفتے مزید ریکارڈ ٹوٹنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ نیشنل ویدر سروس کا کہنا ہے کہ امریکا کے وسط جنوبی حصے میں کہیں کہیں ابھی بھی برف باری اور جمادینے والی سردی کے امکانات باقی ہیں۔