شمالی افریقی ملک لیبیا کے قانون سازوں نے نئی مقرر کردہ عبوری حکومت کی تصدیق کردی ہے۔ اس امید پر کی ہے کہ وہ جنگ زدہ شمالی افریقی ملک کو متحد کرنے اور سال کے آخر میں انتخابات کرانے میں مدد کریں گے۔
132 قانون سازوں نے وزیر اعظم عبد الحمید دبیبہ کی حکومت کو منظوری دی جس میں دو حریف انتظامیہ کو ہٹا دیا گیا ہے جو ایک ملک کے مشرق میں اور دوسرا مغرب میں برسوں سے لیبیا پر حکمرانی کر رہے تھے۔
مغربی شہر مصراتہ سے تعلق رکھنے والے طاقتور تاجر عبد الحمید دبیبہ کو گذشتہ ماہ عبوری حکومت کو ایگزیکٹو برانچ کی سربراہی کے لیے مقرر کیا گیا تھا جس میں لیبیا کے ایک سفارت کار محمد یونس مینفی کی سربراہی میں تین رکنی صدارتی کونسل بھی شامل تھی۔
ان کی تقرری کے لیے کئی ماہ سے یو این - بروکرڈ ملٹی ٹریک مذاکرات ہوئے جنہوں نے 24 دسمبر کو پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک سیاسی روڈ میپ طے کیا تھا، جس کی تاریخ دبیبہ نے اپنی تصدیق کے بعد اس کا احترام کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
پارلیمنٹ میں دو روزہ گرما گرم بحث و مباحثے ہوئے اور اس کے بعد اسپیکر صالح نے نئی عبوری اتحاد حکومت کو منظوری دے دی۔ گذشتہ ہفتہ دبیبہ نے اپنی حکومت کو لیبیا کی پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔
عبوری حکومت کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، بنیادی طور پر متعدد بڑے اسلحہ سے لیس مقامی ملیشیاؤں کو ختم کرنا اور کم از کم 20000 فوجی اور غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی سے ملک کو بچانا ہے۔
بين الاقوامی مبصرين کا ماننا ہے کہ عبوری نظام کے اس معاہدے کو ليبيا ميں داخلی سطح پر مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے۔