شمالی افریقی ملک برکینا فاسو کے شمال میں واقع ایک گاؤں میں ایک گن مین (مسلح شخص) کے حملے میں کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کے بعد لوگوں نے ہفتے کے روز سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔ یہ کئی برسوں میں ہونے والا مہلک ترین حملہ تھا۔
یہ حملہ جمعہ کی شام ساہیل کے یگھا صوبے کے سولہن گاؤں میں ہوا۔ یہ بات حکومتی ترجمان اوزینی تمبورا نے ایک بیان میں شدت پسندوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے بتایا کہ نائیجر کی سرحد کی طرف آنے والے علاقے میں مقامی مارکیٹ اور متعدد مکانات بھی جل گئے۔
اس خبر (Burkina Faso shooting) پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دارالحکومت اواگادوگو کے رہائشی برنارڈ اویڈراگو نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس طرح کے حملوں کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے کارروائی کرے۔
ایک تجزیہ کار سیاکا کولیبلی نے اس حملے کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ برکینا فاسو کے دفاعی اور سکیورٹی سسٹم کے بارے میں سوالات پوچھے جائیں گے۔
صدر روچ مارک کرسچن کابور نے اس حملے کو 'وحشیانہ' قرار دیا اور تین دن کے سوگ کا اعلان کیا۔
کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ساہیل میں 5 ہزار سے زیادہ فرانسیسی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپریل میں ایک ہفتہ میں برکینا فاسو میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں دو ہسپانوی صحافی اور ایک آئرش کنزرویسٹسٹ بھی شامل ہیں۔ ملک میں دس لاکھ سے زیادہ افراد داخلی طور پر بے گھر ہوئے ہیں۔