پنجی (گوا): فلسماز آنند ایل رائے کی حالیہ دو بڑی فلمیں زیرو اور رکشا بندھن باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی۔ اس بارے میں فلسماز نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'کامیابی کبھی میرے سر پر نہیں چڑھتا ہے اور ناکامی نے کبھی میرا دل نہیں توڑا'۔ تنو ویڈز منو اور رانجھنا جیسی کامیاب ترین فلمیں دینے والے فلمساز کا خیال ہے کہ فلم سازوں اور شائقین کے درمیان تعلق لاتعلقی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔Aanand L Rai on Raksha Bandhan Failure
51 سالہ ڈائریکٹر نے یہاں ایک انٹرویو میں پی ٹی آئی کو بتایا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ میکرز اور شائقین کے درمیان ایک خاص قسم کی لاتعلقی ہے۔ کیا یہ ہماری غلطی ہے یا ان کی غلطی؟ نہیں، اس میں کسی کی غلطی نہیں ہے۔ ابھی ہم صرف یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم کیا غلط کر رہے ہیں۔کیا ہم نے لوگوں کی خواہشات کی قدر نہیں کی اور انہیں وہ چیز دکھا رہے تھے جو وہ نہیں چاہتے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو میرے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔
ایک کہانی کار کے طور پر رائے کا ماننا ہے کہ ' رکشا بندھن' بناتے وقت انہوں نے جو سب سے بڑی غلطی کی وہ شائقین کے درمیان فرق پیدا کردیا'۔ فلمساز نے بتایا کہ ' میں رکشا بندھن بناتے وقت غلطی کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ مجھے انہیں کچھ ایسا دینا چاہیے جو زیادہ ہندوستانی ہو اور میں صرف بی اور سی درجے کے شہروں کے سامعین کے لیے یہ فلم بنا رہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ' میں نے شائقین کے درمیان فرق کرنے کی غلطی کی، یہ میرا کام نہیں ہے۔ مجھے شائقین کو منتخب کرنے کے بجائے کہانی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جو میرا کام ہے اور یہ میرے لیے ایک سبق ہے۔ آنند نے اسٹار وار کے ہداتیکار جیورج لیوکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ' فلمیں بنانا سیکھنا آسان ہے لیکن یہ سیکھنا مشکل ہے کہ کس چیز کے بارے میں فلمیں بنائی جائیں۔ ان کا خیال ہے کہ فلم انڈسٹری وبائی امراض کے بعد شائقین کے مزاج کے بارے میں اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ ' ہم ایک ہی چیز سے لڑ رہے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس لمحے اور اس مرحلے میں کون سی کہانی شائقین کو پسند آئے گی۔ وبائی امراض کے بعد ہم شائقین کو یہ دینے میں ناکام رہے ہیں'۔ واضح رہے کہ اکشے کمار کی فلم ’رکشا بندھن‘ ہی نہیں، بلکہ زیادہ تر ہندی فلمیں، جن میں عامر خان کی ’لال سنگھ چڈھا‘، رنویر سنگھ کی ’83‘ اور ’جےیش بھائی جوردار‘، کمار کی ’سمراٹ پرتھویراج‘ اور کنگنا رناوت کی ’دھاکڑ‘ شامل ہیں، لوگوں کو تھیٹر تک لانے میں ناکام رہی ہے۔
عالیہ بھٹ کی 'گنگوبائی کاتھیاواڑی'، کارتک آرین کی اداکاری والی فلم 'بھول بھولیا 2'، 'دی کشمیر فائلز' اور رنبیر کپور کی 'برہمسترا پارٹ ون: شیوا' وہ واحد بڑی باکس آفس کامیابیاں ہیں جو اس سال بالی ووڈ نے دیکھی ہیں۔ آیان مکھرجی کی ہدایت کاری میں بننے والی "برہمسترا" کے بعد تجارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے دور میں صرف بڑی تماشائی فلمیں ہی سینما گھروں میں اچھی کارکردگی دکھا سکیں گی۔
درمیانی بجٹ کی کرائم تھرلر 'دریشیم 2'، اسی نام کی ملیالم فلم کے ہندی ریمیک کا سیکوئل ہے، جو گزشتہ جمعہ کو ریلیز ہونے کے بعد گھریلو باکس آفس پر 100 کروڑ حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاہم رائے کا خیال ہے کہ فلم کی کہانی ہے شو چلاتی ہے۔
آنند نے بتایا کہ ' ہم سب نے سوچا کہ لوگ صرف بڑی فلمیں سنیما گھروں میں دیکھنا چاہتا ہیں لیکن پھر ہم نے دریشیم 2 کے پرفارمنس کو دیکھا تو مجھے لگتا ہے کہ صرف کہانی ہی لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ فلم کبھی بھی ستاروں کے بارے میں نہیں تھی کم از کم میرے لیے تو نہیں۔ فلموں میں میری بنیاد آر مادھون اور دھنش نے بنائی تھی اور ناظرین ان فلموں کو دیکھ رہے ہیں۔
اس سال اگست میں ریلیز ہونے والی "رکشا بندھن" کے معاملے میں فلمساز نے کہا کہ ان کی طرف سے اس فلم کو بریکیٹ میں رکھنا ہی ان کی غلطی تھی۔
فلمساز نے کہا کہ 'شاید میں نے رکشا بندھن کے ساتھ ہوشیار بننے کی کوشش کی۔ میں اسے بریکٹ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ غلط ہے۔
آنند رائے، جو عام طور پر ایک کہانی کو لکھنے اور اسے اسکرین پر لانے میں دو سال سے زیادہ کا وقت لگاتے ہیں، نے اترنگی رے کے فوراً بعد رکشا بندھن پر کام کرنا شروع کردیا تھا، جس میں سارہ علی خان اور دھنش کے ساتھ اکشے کمار بھی تھے۔ اگرچہ یہ ان کی 'جلدی تیار ہونے والی فلم تھی، لیکن رائے نے کہا کہ وہ فلم میں کام کرنے کے عمل سے لطف اندوز ہوئے۔
'یہ میری جلدی بننے والی فلم تھی لیکن میں نے اسے پسند کیا۔ میں نے یہ فلم کبھی بھی جلدی میں نہیں بنائی۔ مجھے مزہ آیا۔ لیکن میں فلم کے کام کرنے کے بارے میں بہت سوچ رہا ہوں۔ اور مجھے سمجھ آگیا ہے کہ رکشابندھن میں سب کام ترتیب سے کیے گئے تھے۔ بدقسمتی سے اس میں دکھائے گئے جذبات پہلے بھی دکھائے جاچکے ہیں اور مجھے لگا شاید یہ کام کرے گا۔ لیکن کیا میں نے ایمانداری سے کام نہیں کیا؟ نہیں میں اپنے کام کے تئیں بے حد ایماندار رہا۔ صرف ایک حکمت عملی تھی جو ناکام رہی'۔