سب سے پہلے انہیں 30 اپریل کو ڈی ایم آفس بلایا گیا جہاں انہیں نوٹس دیا گیا۔ اس میں دفعہ 9 کے تحت تیج بہادر سے پوچھا گیا کہ کیا اپ کی معطلی بدعنوانی کے سبب ہوئی؟
نوٹس ملتے ہی تیج بہادر اور ان کی ٹیم نے اس کا جواب دیا۔ جواب میں تیج بہادر نے کہا کہ انہیں جس دفعے کے تحت نوٹس دیا گیا ہے وہ اسکے ماتحت نہیں آتے۔
انہوں نے بتایا کہ جواب دینے کے بعد جیسے ہی ہم لوگ باہر آئے، شام میں دوبارہ ڈی ایم آفس بلایا گیا اور دوسرا نوٹس دیا گیا۔ اس مرتبہ دفعہ 33 کے تحت نوٹس دیا گیا۔ جس کا جواب دینے کے لیے دوسرے دن صبح 11 بجے تک کا وقت دیا گیا۔
دفعہ 33 کا مطلب کوئی بھی سرکاری ملازم اگر پانچ سال کے اندر برخاست ہوا ہے تو اسے نامزدگی کے دوران ہی برخاستگی کا سرٹفیکٹ بھی الیکشن کمیشن سے منظور کر جما کرنا پڑتا ہے۔ جو تیج بہادر نے نہیں کیا تھا۔ لیکن اس کا ذکر اس نے حلف نامہ میں کیا تھا۔
تیج بہادر اور ان کے حامیوں کا الزام ہے کہ جب وہ ازاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تب الیکشن کمیشن کو کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن جیسے ہی انہیں سماجوادی پارٹی کی جانب سے امیدوار بنایا گیا، وہ بی جے پی کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ بی جے پی کو یہ برداشت نہیں ہوا اور پارٹی نے انہیں انتخابی میدان سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔