ایک ہی پارلیمانی حلقہ سے کانگریس اور بی جے پی دونوں پارٹیوں کے دو دو پرچۂ نامزدگی داخل کر اس انتخاب کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔
لیکن یہ بات دلچسپ ہوگی کہ کتنے امیدوار اپنا پرچۂ نامزدگی واپس لیتے ہے کیونکہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی پارٹیاں اپنے اور اتحادی جماعت کے باغی امیدواروں کی وجہ سے کافی پریشان ہے۔
پرچہ نامزدگی کے پہلے دن یعنی 4 اپریل کو ایک امیدوار، 8 اپریل کو امیدوار، آخری دن یعنی گزشتہ روز 12 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کر بھیونڈی پارلیمانی حلقہ سے انتخابی بگل بجادیا ہے۔
کانگریس این سی پی اتحاد کی طرف سے سریش ٹاورے ،بی جے پی شیوسینا آر پی آئی اتحاد کے امیدوار کپل پاٹل، ایس پی اور بی ایس پی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر نورالدین انصاری اور سریش گوپی ناتھ مہاترے، نوید بیتاب سمیت 22 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔
بی جے پی کی اتحادی جماعت شیوسینا کے قدآور رہنما اور تھانے ضلع پریشد اسٹینڈنگ کیمٹی سمیت کئی عہدوں پر فائز سریش عرف بالیا مہاترے نے آزاد امیدوار کے طور پر پرچہ نامزدگی داخل کرکے بی جے پی امیدوار اور موجودہ رکن پارلیمان کپل پاٹل کی مشکلوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
سریش مہاترے عرف بالیا ماما کے بارے میں یہ افواہ تھی کہ وہ کانگریس کے امیدوار ہوسکتے ہیں مگر پیر کو کانگریس سے امیدوار سریش ٹاورے نے پرچہ نامزدگی داخل کرکے تمام افواہوں کو پوری طرح ختم کردیا۔
بھیونڈی پارلیمانی سیٹ آگری اور کنبی اکثریت والی سیٹ ہے جبکہ اس سیٹ پر تیسری تعداد مسلم ووٹرس کی ہے اسی کو دھیان میں رکھ کر کانگریس اپنے قدم بڑھارہی ہے۔ اب تک جو بھی نتائج آئے ہیں اس میں کانگریس کے لئے مسلم ووٹ کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
لیکن اس بار کے پارلیمانی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم اور پرکاش امبیڈکر کی ونچت اگھاڑی اتحاد کے ڈاکٹر ساونت اور ایس پی، بی ایس پی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر نورالدین انصاری بطور امیدوار انتخابی میدان میں ہے اور مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔