29 ستمبر کو دنیاں بھر میں عالمی یوم قلب منایا جاتا ہے۔ اس کو منانے کا خاص مقصد عوام کو دل سے متعلق بیماری کے بارے میں آگاہ کرنا اور اس سے تحفظ کے لیے شعور بیدار کرنا ہے۔
اس موقع پر ای ٹی وی بھارت نے بنارس ہندو یونیورسیٹی کے ماہر قلب ڈاکٹر اوم شنکر سے خصوصی بات چیت کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں برس کے لیے آج کا دن بہت اہم ہے کیونکہ کورونا وائرس قلب کے مریضوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ اس لیے امراض قلب سے بچنے کے لیے ہرممکن تدابیر اختیار کی جائے۔
انہوں نے کہا دنیاں بھر میں سب سے زیادہ مرنے والے دل کے مریض ہیں لیکن ان میں سے 80 فیصد اموات کو روکا جا سکتا ہے بشرطیکہ وقت سے بیماری کا تعین ہوجائے اور علاج کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ امراض قلب مختلف طریقے کا ہوتا ہے جن میں سے ایک پیدائشی طور پر لاحق رہتا ہے۔ اس میں بھی دو طریقے ہیں ایک سے جسم نیلے رنگ کا ہوجاتا ہے جبکہ دوسرے سے رنگ پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ یہ بیماری کم عمری میں ہی ہلاک کر سکتی ہے۔
انہوں بتایا کہ اس وقت تیزی سے نوجوان نسل امراض قلب کا شکار ہورہی ہے اور زیادہ تر نوجوان موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں لیکن اگر تمباکو نوشی، شراب نوشی، ٹینشن، تناؤ، موٹاپا، بلڈ پریشر جسے معاملوں پر قابو پالیں تو یہ بیماری بآسانی ختم ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا جسمانی ورزش سے بھی دل کے مریضوں کو فائدہ ہوتا ہے اور روزانہ 45 منٹ تک جسمانی ورزش بہت مفید ہے۔
انہوں کہا کہ غذائیت سے پُر اشیاء کا استعمال کیا جائے اور نظام حیات کو وقت کا پابند کیا جائے۔ اس سے نہ صرف دل کے مریضوں کو فائدہ ہوگا بلکہ دیگر امراض بھی ختم ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ امراض قلب کے شکار لوگوں میں چند نشانیاں پائی جاتی ہے۔ جیسے سینے میں اچانک سے دردر ہونا گردن یا بازو کی جانب درد ہونا۔ یہ درد کبھی پیٹ میں بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد نشانیاں ہیں جس کے ظاہر ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور علاج شروع کردیں۔
واضح رہے کہ 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 6 کروڑ افراد امراض قلب کے شکار ہیں، جن میں سے دو کروڑ کی عمر 40 برس سے کم ہے یعنی نوجوانوں میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ رات میں جگنا اور موبائل یا کمپیوٹر پر اوور ٹائم کام کرنے سے بھی دل متاثر ہوتاہے۔